KAZZAB FIRQE KE JHOOTE AQAID

 





کذاب فرقے کے جھوٹے عقائد

                  اور المہند کی اشاعت پر ایک نظر                  


  از: سعد حنفی (تحریک اصلاح عقائد) 
===============================
    ہماری پہلی پوسٹ”حسام الحرمین کا پس منظر“ آپ حضرات نے ملاحظہ کیا تو اب ہماری ذمہ داری ہے کہ المہند جسے دیوبندی مکتب فکر کے لوگ ”حسام الحرمین“ کا جواب مانتے ہیں اس پر تھوڑی گفتگو کی جائے۔
     المہند علی المفندیعنی عقائد علمائے دیوبند نامی اس کتاب نے نہ صرف عوام اہل سنت کو گمراہ کیا بلکہ خود انکے وہ پیروکار جو واقعی اپنی جماعت کو اسی نظر سے دیکھتے تھے جسے امام اہل سنت نے وضح فرمایا ان سب کو اپنی ہی جماعت کا باغی بنا دیا۔

    چونکہ دیوبندی عقائد اصل میں وہی عقائد تھے جو شیخ عبدالوہاب نجدی کے تھے اور اسکا اعتراف خود انکے مشہور مناظر مولوی منظور نعمانی نے اپنی کتاب”شیخ محمد بن عبدالوہاب اور ہندوستان کے علمائے حق“میں کیا ہے۔چنانچہ منظور نعمانی اپنی اس کتاب میں لکھتا ہے:
مولانا رشید احمد گنگوہی کی اس رائے کا ثبوت بھی مل جاتا ہے جو انھوں نے شیخ محمدبن عبدالوہاب اور ان کی جماعت کے بارے میں اپنے فتوے میں ظاہر کی ہے،(کہ ان کے عقائد عمدہ تھے اور انکا مذہب حنبلی تھا)
 (شیخ محمد بن عبدالوہاب اور ہندوستان کے علمائے حق،ص:64)

 پھر اسکے آگے کے صفحہ پر لکھتا ہے کہ
 ”اسی طرح منقولہ بالا قتباسات اور ان حضرات کی دوسری تصانیف ”کتاب التوحید“ وغیرہ مطالعہ سے یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ اخلاص توحید کی دعوت اور اس کے تقاضوں پر شدید اصرار اور قبر پرستی،پیر پرستی،ارواح پرستی،غیر اللہ کی نذرونیاز اور قربانی وغیرہ شرک کی ان سب شکلوں اور قسموں کے خلاف(جو شیطان کی کوششوں سے مسلمانوں کے گمراہ طبقوں میں رواج پاگئی ہیں) ہر ممکن طریقہ سے جہاد کے بارے میں ان کا نقطہ نظر اور رویہ وہی ہے بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ سخت اور تیز ہے جو ہمارے جماعت کے ایک امام اور مقتدا شہید فی سبیل اللہ شاہ محمد اسمٰعیل کا ان کی مشہور تصنیف ”تقویۃ الایمان“ میں نظر  آ تا ہے۔
 (شیخ محمد بن عبدالوہاب اور ہندوستان کے علمائے حق، ص:65) 

منظور نعمانی کی اس بیان بازی سے آپ حضرات کو واضح سمجھ میں آ گیا ہوگا کہ دیوبند کی بنیاد ہی وہابیت کو فروغ دینے کیلئے ہوئی تھی اور تقویۃ الایمان نامی کتاب اس فتنے کی پہلی کڑی تھی جس کی بناء پر مولوی اسماعیل دہلوی اور اسکے ماننے والوں کو وہابی کہا گیا،لیکن چونکہ قدیم ہندوستان میں دیوبندیت اور وہابیت کا نام نشان دال میں نمک کے برابر بھی نہ تھا یہی وجہ ہے کہ علمائے حرمین کو دھوکہ دینے کیلئے اور ملک کی عوام اہل سنت کو فریب دینے کیلئے جب المہند میں یہ سوال آ یا کہ”محمد بن عبدالوہاب نجدی حلال سمجھتا تھا مسلمانوں کے خون اور ان کے مال وآبرو کو اور تمام لوگوں کو منسوب کرتا تھا شرک کی جانب اور سلف کی شان میں گستاخی کرتا تھا اس کے بارے میں تمہارے کیا رائے ہے اور کیا سلف اور اہل قبلہ کی تکفیر کو تم جائز سمجھتے ہو یا کیا مشرب ہے؟“ اسکا جواب مولوی خلیل احمد انبٹھوی جو مولوی رشید احمد گنگوہی کا پیروکار تھا ارے وہی مولوی رشید احمد گنگوہی جن کے حوالے سے خود ان کے رئیس المناظرین نے کہا کہ انکا نظریہ ان کے فتویٰ سے ہی ظاہر ہے کہ انھوں نے شیخ عبدالوہاب کے ماننے والوں کا عقیدہ عمدہ اور اسکو بہتر بتایا اس سے یوٹرن لیتے ہوئے مولوی خلیل احمد انبیٹھوی لکھتا ہے ”ہمارے نزدیک ان کا حکم وہی ہے جو صاحب در مختار نے فر مایا ہے(اس کے بعد علامہ شامی کا فتویٰ نکل کیا) پھر مولوی خلیل احمد انبیٹھوی صفائی دیتا ہے کہ ”اس کے بعد میں کہتا ہوں کہ عبدالوہاب اور اس کا تابع کوئی شخص بھی ہمارے کسی سلسلہ مشائخ میں نہیں،نہ تفسیر وحدیث کے علمی سلسلہ میں نہ تصوف میں“
(المہند علی المفند بارہواں سوال کا جواب)

 محترم دوستوں اب بتائیے یہ فراڈ اور مکاری ہے یا نہیں تم جس اس کتاب کو حسام الحرمین کا رد بتاتے ہو،یہ حسام الحرمین کا رد نہیں بلکہ اس کے سامنے تمہاری لٹکی ہوئیں گردنیں ہیں جو خود گواہی دے رہیں ہیں کہ ہم نے بہت بڑے فتنہ کو جنم دیا تھا لیکن مولانا احمد رضا خان صاحب نے اس پر پانی پھیر دیا جس مذہب کو انکے امام ربانی رشید احمد گنگوہی عمدہ بتارہے تھے اسی کو علمائے حرمین کے سامنے پیش کر کے مولوی خلیل احمد انبٹھوی لکھتا ہے، کہ عبدالوہاب اور اس کا تابع کوئی شخص بھی ہمارے کسی سلسلہ میں نہیں جبکہ المہند کی حقیقت کو دیکھتے ہوئے بھی مولوی منظور نعمانی دیوبندی اس بات کا اعتراف خود ہی کرتا ہے کہ تقویۃ الایمان نامی کتاب وہابی تحریک کے مطابق ہی تھی مولوی رشید احمد گنگوہی نے سچ بیان کیا ہے تو جناب جب مولوی رشید احمد گنگوہی اور اسماعیل دہلوی حق ہیں تو خلیل احمد انبیٹھوی کی گردن کیوں ان علمائے حرمین کے سامنے لٹک گئی تھی؟تو اس کا جواب ہم بتاتے ہیں اسکی گردن حسام الحرمین کی زد میں آنے کی بناء پر لٹک گئی تھی۔اور علمائے حرمین کو جھوٹ اور فریب دینے کی کوشش کی تھی۔جس کاواضح ثبوت ہم نے پیش کر دیا ہے،۔یہی وجہ ہے کہ مولوی منظور نعمانی کی کتاب”شیخ محمد بن عبدالوہاب اور ہندوستان کے علمائے حق“ کے مقدمہ میں مولوی سلیم اللہ خان اور مولوی زاہدالراشدی دیوبندی کے تلمیذ رشید مولانا سخی داد خوستی کے کلمات المہند کے بارے میں کچھ طرح نقل کئے گئے ہیں: 
”المہند علی المفند پر مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب،مفتی عزیز الرحمن صاحب مولانا اشرف علی تھانوی صاحب کی دستخطیں بھی ہیں مگر حیات انبیاء علیہم السلام کے متعلق ان حضرات کا عقیدہ جو انھوں نے اپنے فتاویٰ،تفاسیر میں لکھا ہے المہند علی المفند کے خلاف ہے تو یہ رسالہ علماء دیوبند سے مستند نہیں بلکہ مستندان کی تفاسیر فتاویٰ اور حدیث کی شروحات ہیں“(ص:17)

اسی طرح خود دیوبندی جماعت کے مولویوں نے ہی اس کتاب میں المہند کے بارے میں اپنے تبصرے اس طرح کئے ہیں ”اس کتاب میں عرب علماء کے دستخط اور مہریں ہیں ان میں سے بعض کی تاریخ جو مہرمیں درج ہے وہ1325ھ؁ سے پہلے کی ہے معلوم ہوا کہ اس میں جعلی کاروائی ہوئی ہے“
(شیخ محمد بن عبدالوہاب اور ہندوستان کے علمائے حق، ص:18) 

    دیوبندی مولویوں کی ان گواہیوں کے ملاحظہ کرنے کے بعد اس بات کا اندازہ واضح لگایا جاسکتا ہے کہ”المہند علی المفند“ نامی یہ کتاب صرف اور صرف علمائے حرمین کو دھوکا دینے کیلئے شائع کی گئی تھی جبکہ خود اس میں بیان کر دہ عقائد(جنھیں دیوبندی مناظرین عوام کو گمراہ کرنے کیلئے اپنے عقائد بتاتے ہیں) سے انکی جماعت کے مولوی ہی اتفاق نہیں رکھتے۔

مطلب جس کتاب کو عقائد علمائے دیوبند کے نام سے مشہور کیا گیا ہے اس میں بیان کر دہ عقائد جب انہیں کی جماعت کے مولویوں کا متفقہ عقیدہ ثابت نہیں ہو سکا تو علمائے حرمین کو کیوں یہ بتایا گیا کہ ہمارے یہی عقیدہ ہیں جو المہند میں تحریر کئے گئے ہیں۔تو اس کا جواب یہی ہوگا کہ صرف اور صرف علمائے حرمین کو دھوکا دینا انکا خاص مقصد تھا جیسا کہ المہند میں مولوی خلیل احمد انبیٹھوی کا جواب اور مولوی رشید احمد گنگوہی کے فتویٰ کا اس سے اختلاف صاف ظاہر ہے۔

المہند کی اشاعت پر ایک نظر:
ہماری پچھلی پوسٹ پر کچھ نومولود دیوبندی مناظرین نے اعتراض کیا تھا کہ اس میں جو لکھا ہے کہ حسام الحرمین کے 27سال بعد المہند چھپی یہ سعد حنفی کا کھلا جھوٹ اور فراڈ ہے حسام الحرمین کے دوسرے سال ہی المہند شائع ہو چکی تھی اور اسکا رد خود علمائے بریلی نے کیا،پھر اس پر چند ایک رسالہ کے نام بھی گنوائے گئے،اور اقرار کیا گیا کہ خود اعلیٰ حضرت کے زمانے میں ہی انکے خلفاء نے المہند کا رد فر مایا (ماشاء اللہ)
ویسے اسکا جواب ہم الگ سے پوسٹ لکھ کر دے سکتے تھے لیکن ہم  نے مناسب سمجھا کہ اسی عنوان کے تحت اسی پوسٹ میں اسکا جواب تحریر کریں:
      نومولود دیوبندی مناظرین کے نزدیک ہم صرف اس لئے جھوٹے ہوگئے کہ ہم نے یہ لکھ دیا کہ المہند حسام الحرمین کے 27سال بعد اعلیٰ حضرت کے وصال کے 12سال بعد چھپی۔حالانکہ جھوٹ اور فراد کا فتنہ تو خود المہند ہے جس میں علمائے حرمین سے کھلا جھوٹ بولاگیا جس کی تفصیل ہم نے بیان کر دی ہے اور اب اسی کتاب کے بارے میں خودیوبندی مولوی کا اقرار بھی ہم نے بیان کر دیا ہے چونکہ یہ جھوٹ ہماری زبان سے نہیں بلکہ انکے دیوبندی مولویوں کی ہی زبان سے نکلا ہے ہم نے تو بس اپنے لفظوں میں اس کو نقل کر دیا لیکن چونکہ جس کتاب پر دیوبندی جماعت ہی اپنا اجماع ثابت نہ کرسکے اس کتاب کے بارے میں کیا ہی کہا جائے: چلئیے ہمارے جس دعویٰ کو یہ جھوٹ کہہ رہے ہیں اس کی حقیقت انہیں کی کتاب سے ملاحظہ کرتے ہیں:
منظور نعمانی کی کتاب ”شیخ محمد بن عبدالوہاب اور ہندوستان کے علمائے حق“ کے صفحہ 17پر خود دیوبندی مولویوں نے ا س المہند کے غیر متعبر ہونے کے جو قرینہ بیان کئے ہیں ان میں سے دوسرا قرینہ یہی بیان کیا گیا ہے کہ
 ”المہند کو تحریر سے ستائیس سال بعد اور مولوی احمد رضا بریلوی کی وفات سے بارہ(12) سال بعد طبع کرایا گیا،اب سوال یہ ہے کہ حضرت مولانا سہارنپوری نے اپنی زندگی میں کیوں نہیں چھپوایا اور ستائیس سال مسودہ کس نے محفوظ رکھا؟اور کتاب تو مولوی احمد رضا خان بریلوی کے خلاف لکھی گئی تھی تو یہ اس کی زندگی میں چھپوانا چاہئے اس کی وفات سے بارہ سال بعد کیوں چھپوایا؟کیا ضرورت محسوس ہوئی معلوم ہوا کہ ایک خاص تعصبی نظرئیے کے تحت اس میں تر میم واضافہ کر کے چھپوایا ہے“۔

   اب دیوبند کے نومولود مناظرین بتائیں کہ اس جھوٹ اور فراڈ کو جنم کس نے دیا؟ہم نے تو صرف نقل کیا اور تم ہمیں بدنام کر نے میں پیچھے نہیں ہٹے ارے اس کتاب پر ہی جھوٹے ہونے کا دعویٰ تمہارے گھر میں موجود ہے کہ جس کو تم حسام الحرمین کا جواب اور عقائد علمائے دیوبند بتا کر علمائے حرمین کو دھوکہ دینے پہنچے تھے۔بقیہ رہا اس کتاب کا رد تو ہم نے اس میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جب چھپی تب رد ہوا۔1830ء؁ میں جب مولوی اسماعیل دہلوی نے سراٹھایا تو اسکا بھی جواب دیا،1871ء؁ میں جب تحذیر الناس کے ذریعے قاسم نانوتوی نے فتنہ بویا تو اسکا بھی علمائے اہل سنت نے جواب دیا،براہین قاطعہ کا فتنہ بویا تو مولوی خلیل احمد انبیٹھوی کو غلام دستگیر قصوری نے مناظرہ میں ذلیل کیا جو کہ 1306میں ہوا۔
حسام الحرمین توعلمائے حرمین کیلئے کوئی نئی شکایت نہیں تھی ان دیوبندی اکابرین کی شکایتیں کئی دہائیوں سے ان علمائے حرمین تک پہنچتی رہیں۔


                اس پوسٹ کو زیادہ سے زیادہ شئر کریں اورہمارے بلاگ سے خود بھی جڑیں اور لوگوں کو بھی اس کی طرف بلائیں تاکہ شوشل میڈیا پر ایمان لوٹنے والے دجالوں سے انکے ایمان وعقیدہ کی حفاظت ہو سکے انشاء اللہ عزوجل



Comments

Popular posts from this blog

Hassamul Harmain Ka Pas Manzer

اہلسنت پر اعتراضات کے جوابات

22 Rajjab Ke Kunde Aur Munafikeen