Hassamul Harmain Ka Pas Manzer







 حسام الحرمین کتاب کا پس.منظ
ر


 ✍️از: سعد حنفی(تحریک اصلاح عقائد

اکثر منافقین کی ایک جماعت اس کتاب کو لیکر طرح طرح کے پروپیگنڈا چلاتی ہے۔کہ اس کتاب میں علمائے دیوبند کی عبارتوں کو کاٹ چھاٹ کر کفریہ طرز پر بنا کر علمائے حرمین کے سامنے پیش کی گیا جس کو پڑھ کر علمائے حرمین نے ان اکابرین دیوبند کو کافر جانا اور انکی تکفیر کر دی۔جبکہ یہ سب سراسر جھوٹ اور امت کو گمراہ کرنے کی کوشش ہے۔

     اکابرین علمائے دیوبند کے کارناموں کا سلسلہ 1830ء؁ کے آس پاس شروع ہوا جبکہ حسام الحرمین 1906ء؁ میں شائع ہو ئی اور اس سے ایک سال قبل امام اہل سنت ان عبارات کفریہ کو لیکر علمائے حرمین کے سامنے برائے استفتاء پہنچے تھے۔

     اب یہاں یہ سوال آ تا ہے کہ جب کفریہ عبارتوں کا سلسلہ اتنے پہلے سے شروع ہوا تو کیا اس وقت علمائے اہل سنت نے انہیں نہیں رو کا۔تو اسکا جواب ہے بالکل ان کا رد فر مایا اور انکے خلاف رسالے لکھے گئے انکی تکفیر کی گئی۔

     امت میں انتشار پھیلانے والی پہلی کتاب ”تقویۃ الایمان“ میں جب انبیاء واولیاء کی شان میں گستاخیاں کیں گئیں اس پر مولانا فضل حق خیرآبادی علیہ الر حمہ نے گرفت کرتے ہو ئے مولوی اسماعیل دہلوی کی تکفیر۔اور اس کتاب کے مصنف مولوی اسماعیل دہلوی کو بارہا مناظرہ کا چیلنج بھی دیا گیا کئی مرتبہ مناظرہ طے ہونے کے باوجود اس سے غیر حاضر رہا اس کتاب کا رد بھی پر زور انداز میں کیا گیا اس کا ایک منظر خود مولانا ابوالکلام آزاد نے بیان کیا ہے کہ ”مولانا محمد اسماعیل شہید،مولانا منور الدین کے ہم درس تھے شاہ عبدالعزیز کے انتقال کے بعد جب انھوں نے تقویۃ الایمان اور جلا العنین لکھی اور ان کے ا س مسلک کا ملک میں چرچا ہوا تو تمام علماء میں ہلچل پڑگئی ان کے رد میں سب سے زیادہ سرگرمی بلکہ سربراہی مولانا منورالدین نے دکھائی۔متعدد کتابیں لکھیں اور 1248ھ؁ والا مشہورمباحثہ جامع مسجد کیا“۔(آزاد کی کہانی خو د آزاد کی زبانی ص:56)اس سے پتہ چلتا ہے کہ امت میں اختلاف اسماعیل دہلوی کے ذریعے انگریزوں نے 1831ء؁ میں ہی شروع کرد یا تھا۔ابھی اس وقت اعلیٰ حضرت امام اہلسنت کی ولادت بھی نہ ہوئی تھی۔

اسی طرح تحذیر الناس 1871ء؁ میں لکھی مطلب حسام الحرمین سے تقریبا35سال قبل اس وقت اس کتاب کا بھی یہی حال تھا علماء اہل سنت نے اس کی اشاعت کے ساتھ ہی اس کا رد شروع کردیا جیسا کہ خود دیوبندیوں اکابرین کا اقرار موجود ہے۔دیوبندی مولوی اشرف علی تھانوی اپنے ملفوظ میں بیان کرتے ہیں کہ جس وقت مولوی قاسم نانوتوی نے تحذیر الناس لکھی اس وقت ملک بھر میں کسی نے بھی ان سے موافقت نہیں کی (ملفوظات حکیم الامت جلد 5ملفوظ نمبر 314)

اسی طرح”براہین قاطعہ“ کا معاملہ آیا جب شیطان لعین کے علم کیلئے نصوص قرآنی کا اقرار تو کیا گیا لیکن جب حضور علیہ السلام کے علم کی بات آئی تو اسے شرک بتایا گیا۔

    براہین قاطعہ کتاب کا ایک تاریخی پہلو یہ بھی ہے کہ جب یہ کتاب چھپ کر منظر عام پر آئی تو مولانا غلام دستگیر قصوری اور مولوی خلیل احمد انبٹھوی جن کے در میان پہلے دوستانہ تعلقات تھے ایک دوسرے کے سخت مخالف ہو گئے،براہین قاطعہ چوں کہ انبیٹھوی صاحب کے نام سے چھپی تھی اس لیے اس کو دیکھنے کے بعد غلام مولانا غلام رسول دستگیر قصوری صاحب کو بڑا صدمہ ہوا اور وہ بہ نفس نفیس بھاول پور پہنچے اور اپنے دیرینہ دوست سے براہ راست گفتگو کر کے صورت حال معلوم فر مائی اور انہیں سمجھانے کی کوشش فر مائی مگر انبیٹھوی صاحب کو اپنی ضدپر قائم پا کر حیرت زدہ وہ گئے۔جب انھوں نے افہام وتفہیم کی تمام تدبیروں کو ناکام ہوتے دیکھا تو انبیٹھوی صاحب کو مناظرہ کا چیلنج دیا،انبیٹھوی صاحب اپنے چھ دیوبندی علما ء کے کر حاضر ہو ئے اور مولانا غلام دستگیر قصوری علیہ الرحمہ بھہ اپنے ساتھ چھ علمائے اہل سنت کے ہمراہ تشریف لائے،اور اسطرح 1306ھ؁ میں مناظرہ بھاول پور نواب بھاول پور کی نگرانی میں ہوا۔جہاں دیوبندی اکابر مولوی خلیل انبیٹھوی کو ذلت آمیز ہار کا سامنا کرنا پڑا۔

   اب یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ حسام الحرمین 1324ھ؁ میں شائع ہوئی اور اسی دور میں علمائے حرمین نے ان دیوبندی علماء کی تکفیر فر مائی۔لیکن اسی عبارت پر ہندوستان میں 1306ھ؁ میں مناظرہ ہوا اور یہ عبارت منظر عام پر آتے ہیں بحث کا مدعا بن گئی۔اب یہاں کوئی دیوبندی بتائے اس وقت تو حسام الحرمین شائع نہ ہوئی تو علمائے ہند کے سامنے کونسی عبارت پیش ہوئی کہ انھوں نے اس کا رد فر مایا اور اسکے لکھنے والے سے مناظرہ کیا۔کیا اس وقت بھی تم یہی کہوں گے کہ انکے سامنے دیوبندی اکابرین کی عبارتوں کو کاٹ چھاٹ کر کفریہ بنا کر پیش کیا گیا تھا؟

   اس مناظرہ کی روئیداد ”تقدیس الوکیل عن تو ہین الرشید والخلیل“شائع ہوئی اور اسکی عربی کاپی اس وقت بھی علمائے حرمین شریفین نے ملاحظہ فر مائیں جس پر علمائے حرمین شریفین نے اپنی تائید تصدیقات سے بھی پیش کیں۔

    پتہ چلا حسام الحرمین سے پہلے بھی علمائے حرمین شریفین کے سامنے ان دیوبندی اکابرین کی عبارتیں باعث بحث قرار پائی گئی تھی۔اب دیوبندی جیسے جدید مذہب کے مناظرین اگر یہ کہتے ہیں کہ اعلیٰ حضرت نے علمائے حرمین کے سامنے دیوبندی اکابرین کی عبارتوں کو کاٹ چھاٹ کر پیش کیا تو یہ سراسر الزام اور جھوٹ ہے اور انہیں جھوٹ کے دم پر آج یہ دھرم چلا آرہا ہے۔

     اسی مناظر ہ میں کذب باری تعالیٰ یعنی اللہ تعالیٰ کے جھوٹ بولنے کو لیکربحث ہے،دھیرے دھیرے انگریزوں اور یہودیوں کی شئے پاکر اس فتنہ کی جرأت اتنی بڑھی کہ حضور علیہ السلام کے بعض علوم غیبیہ کا اقرار کرتے ہو ئے یہاں تک لکھدیا گیا کہ اگر حضور علیہ السلام کے بعض علوم غیبیہ مراد لئے بھی جائیں تو اس میں حضور علیہ السلام ہی کی کیا تخصیص ایسا علم غیب تو بچوں اور پاگلوں کو بھی حاصل ہے،(معاذاللہ)(مکمل عبارت حفظ الایمان مولوی اشرف علی تھانوی کی کتاب میں موجود ہے) منافقین دیوبندیہ کی بڑھتی ہوئی گستاخیاں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی کھلی گالیاں بکی جانے لگی۔ تب اعلیٰ حضرت عظیم البرکت امام اہلسنت نے وہ کام انجام دیا کہ جس کی وجہ سے آپ کو امام اہل سنت کا لقب ملا اور آپ اعلیٰ حضرت کے نام سے مشہور ہو ئے آپ نے سن1905ء؁ میں علمائے حرمین کے سامنے ایک بار پھر سے استفتاء پیش کیا حالانکہ علمائے حرمین شریفین کے سامنے یہ کوئی نئی چیز نہیں تھی اس سے پہلے بھی ان دیوبندی اکابرین کے بارے میں کئی شکایتیں ملی اور ان پر ان علمائے حرمین کا بھی رد عمل صاف ظاہر ہوا جس طرح حسام الحرمین کے ذریعے ان علمائے حرمین نے اپنے کام انجام دئیے۔

     حسام الحرمین تقریباً چھپی 1906ء؁ میں اردو ترجمہ کے ساتھ پورے ملک میں علمائے اہل سنت نے اعلیٰ حضرت کے اس عظیم کارنامے کو سراہا اور ملک بھر کے سینکڑوں علمائے اہل سنت نے بھی ان گستاخانہ عبارات کی بنیاد پر اکابرین دیوبند کی تکفیر کی۔

     حسام الحرمین 1906ء؁ میں اردو تر جمہ کے ساتھ شائع ہوئی۔اسکے 15سال بعد امام اہل سنت کی وفات ہوئی پھر اس کے 12سال بعد یعنی حسام الحرمین کی اشاعت کے پورے27سال بعد المہند(کہ جسکو حسام الحرمین کا جواب بتایا گیا) شائع کی گئی جبکہ اس کا مصنف بھی اسوقت مر کر مٹی میں مل چکا تھا۔

     غور طلب ہے کہ اگر حسام الحرمین میں امام اہل سنت نے دیوبندی اکابرین کی عبارتوں کو اگر کاٹ چھاٹ کر پیش کیا تھا تو اس وقت اکابرین دیوبند کس بل میں گھس گئے تھے کیوں عوام کے در میان اپنی صفائی نہیں دی کیوں امام اہل سنت کا سامنا کرنا انکے لئے خوف کا باعث بنا ہواتھا دیوبندی اکابرین کو چاہئے تھا کہ امام اہل سنت کی گرفت کرتے اور انکے رد میں اسی وقت تحریر دیتے لیکن ایسا نہیں کیا امام اہل سنت کی زندگی رب تعالیٰ کی عطا سے بڑی شان عظمت والی رہی اور گستاخان رسول کی زندگی ایسی کہ جیسے بلی کے ڈر سے چوہے کی ہوتی ہے۔انکی ہمت نہ بن بڑی امام اہل سنت کا سامنا کرنے کی اور ایک جھوٹ کا پلندہ (المہند) شائع بھی کیا تو امام اہل سنت کے وصال کے 12سال بعد۔ان سب باتوں سے صاف واضح ہو تا ہے کہ کون منافق تھا اور کون مومن۔کس کے دل میں چور تھا اور کون ایماندار۔

(نوٹ: اس موضوع پر ہمارا ایک مفصل رسالہ جلد منظر عام پر آجائے گا انشاء اللہ عزوجل۔ابھی سرسری طور پر منافقین کے سر اٹھانے والے بے جا اعتراض کا سر کچلنے کیلئے یہ تحریر پیش کی ہے)

Comments

Popular posts from this blog

اہلسنت پر اعتراضات کے جوابات

22 Rajjab Ke Kunde Aur Munafikeen