kiya rhamatullillalameen Hona Apki Sifate Khasa Nahi?

 دفاع اہل سنت اور ساجد بھانڈ کی جہالت 

                      السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ 

معزز قارئین جیسا کہ ہم نے اس سے پہلے بھی آپ کے سامنے دفاع اہلسنت نامی کتاب میں شامل مکروفریب اجاگر کئے ہیں اسی کے ساتھ آج ہم اس میں مولوی رشید احمد گنگوہی کے فتاویٰ میں موجود ایک گستاخانہ عبارت کا دفع کرتے ہو ئے ساجد بھانڈ نے جو اس کی تاویل پیش کی ہے اس تاویل کی علمی حیثیت ملاحظہ کریں گے۔

مولوی رشید احمد گنگوہی سے سوال ہوا:لفظ رحمۃ اللعالمین مخصوص آنحضرت ﷺ سے ہے یا ہر شخص کو کہہ سکتے ہیں۔(جواب) لفظ رحمۃ اللعالمین صفت خاصہ رسول اللہ ﷺ کی نہیں ہے بلکہ دیگر اولیاء وانبیاء اور علماء ربانیین بھی موجب رحمت عالم ہو تے ہیں اگر چہ جناب رسول اللہ سب میں اعلیٰ ہیں لہٰذا اگر دوسرے پراس لفظ کو بتاویل بول دیوے تو جائز ہے۔(فتاویٰ رشیدیہ صفحہ نمبر۷۰۲) 

مولوی رشید احمد گنگوہی کے نزدیک یہ اصول پایا جاتا ہے کہ صفت خاصہ اسی کو کہا جائے گا جو کسی بھی طرح کسی دوسرے میں نہ پایا جائے یہاں تک کہ اگر بتاویل بھی کوئی صفت کسی کو حاصل ہو جائے تو وہ بھی صفت خاصہ نہیں کہلا ئے گی۔

اور یہی اصول لگ بھگ پو رے علمائے دیوبند ومنافقین نجدیہ کا نظر آتا ہے یہی وجہ ہے اللہ رب العزت کے علم غیب کو خاصہ صفت الٰہی قرار دیتے ہیں تو اس کو کسی بھی تاویل کے ساتھ اس لفظ علم غیب کو کسی دوسرے کے ساتھ استعمال نہیں کرتے۔یہی وجہ ہے کہ یہی دیوبندی مولوی رشید احمد گنگوہی اپنے فتاویٰ میں لکھتا ہے ”علم غیب خاصہ حق تعالیٰ ہے اس لفظ کو کسی تاویل سے دوسرے پر اطلاق کرنا ایہام شرک سے خالی نہیں“۔(فتاویٰ رشیدیہ صفحہ نمبر ۸۳۲)

اس سے پتہ چلا کہ جو صفت خاصہ ہو گی وہ کسی بھی تاویل سے کسی اور کیلئے تسلیم نہیں کی جاسکتی۔اور یہی وجہ ہے کہ انکے نزدیک لفظ رحمۃ اللعالمین چونکہ بتاویل ہر کسی کیلئے (انبیاء،اولیاء ودیگر) استعمال کرنا جائز ہے اسی لئے یہ صفت خاصہ نہیں رہی اور حضور علیہ السلام کی صفت خاصہ میں صفت رحمۃ اللعالمین کا انکار کرنا انکے لئے لازمی ہو گیا۔

   سب سے پہلے ہم اس اصول کو ہی دیکھ لیتے ہیں کہاں تک درست ہے؟رشید احمد گنگوہی نے اپنے فتاویٰ میں یہ واضح بیان کیا ہے کہ صفت خاصہ وہی ہے جو کسی دوسرے کیلئے کسی بھی تاویل سے تسلیم نہ کی جاسکے۔

     اب دیکھئے قرآن کیا کہتا ہے۔پہلی ہی آیت

                                          اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo(فاتحہ۔آیت ۱)

                             (ترجمہ:سب خوبیاں اللہ کو جو رب سارے جہان والوں کا ہے)

اب اس آیت سے ہمیں یہ پتہ چل گیا کہ سارے جہانوں کا رب اللہ ہی ہے اور بیشک وہ ہی رب ہے یہ اسکی صفت خاصہ ہے۔لیکن اگر دیوبندیوں کے مندرجہ بالا اصول کو لے لیا جائے تو اللہ عزوجل کا رب ہو نا صفت خاصہ نہیں ہوا اسلئے کہ قرآن عظیم کی یہ آیت:

           یٰصَاحِبَیِ السِّجْنِ اَمَّآ اَحَدُ کُمَافَیَسْقِیْ رَبَّہٗ خَمْرًا   (سورہ یوسف آیت نمبر ۱۴)

(ترجمہ:اے قید خانہ کے دونوں ساتھیوں تم میں سے ایک تو اپنے رب(آقا) کو شراب پلایا کرے گا)

     اب مولوی رشید احمد گنگوہی کا اصول کہ بتاویل کسی دوسرے پر لفظ رحمۃ اللعالمین کہنے سے وہ صفت خاصہ رسول علیہ السلام کی نہیں ہو سکتی تو اب یہاں بھی لفظ رب کا استعمال ہوا اور وہ بھی دنیا کے حاکم کیلئے اب اس پر کیا تمہارے نزدیک معاذ اللہ رب ہو نا اللہ عزوجل کی صفت خاصہ نہیں ہے اس لئے کہ آپ کے نزدیک کسی تاویل سے کسی دوسرے پر لفظ صفت کا استعمال ہونے سے وہ صفت خاصہ نہیں ہوتی تو اس پر کیا کہو گے۔سارے دیوبندیوں کیلئے میرا یہ سوال قرض ہے کہ اس کا جواب ہمیں دیں۔

   جب کہ قرآن مقدس کی ان دونوں آیتوں کو پڑھنے کے بعد ہمیں یہ بات واضح سمجھ میں آجاتی ہے کہ صفت خاصہ صفت خاصہ ہی ہو تی ہے یہی وجہ ہے کہ جب کسی دوسرے پر اس کا استعمال ہو تا ہے تو تاویلاً ہو تاہے اب اگر اللہ رب العزت کا رب ہو نا اسکی صفت خاصہ ہے تو دوسرے کیلئے جب یہ لفظ ہمیں کہیں نظر آجائے تو وہ یقینا رب ہو نا اللہ کی صفت خاصہ ہی ہو گی اور دوسری جگہ تاویلاً اس لفظ صفت کا اقرار بھی کرنا ہو گا۔

     اسی طرح حضور پر نور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رحمۃ اللعالمین ہو نا آپ کی صفت خاصہ ہی ہو گا اور اگر کسی کیلئے یہ بتاویل استعمال کیا جائے تو وہ بتاویل ہی ہو گا حضور علیہ السلام کیلئے جس طرح حقیقی ہے اس طرح کسی کیلئے استعمال نہ ہو گا۔دوسرے پر یہ مجازی طور پر استعمال ہو سکتا ہے۔

    مولانا عمر اچھروی صاحب قبلہ کا رد عمل اور دیوبندی بیان بازی:

     مولانا عمر اچھروی صاحب لکھتے ہیں ”نبی ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے تمام عالمین کی رحمت بنا کر بھیجا۔اب اور کون عالمین ہیں۔جن کے یہ بھی رحمت بن سکتے ہیں۔جیسا کہ رب العٰلمین کہنے کے بعد تمام عالمین میں کسی دوسرے رب کی ضرورت نہیں۔اگر کوئی مانے تو اس نے شرک فی التوحید کیا ہے ایسے ہی رحمۃ اللعلمین کے اقرار کے بعد کوئی عالمین کی رحمت نہیں کہلا سکتا اور اگر تسلیم کرے تو مشرک فی الرسالت ہو گا“(مقیاس حنفیت صفحہ:۰۱۲) 

        یہاں پر بھی دیوبندیوں کی بے بنیاد بیان بازی چلی جس میں ہم نے انکی موجودہ فتنہ پرور کتاب ”دفاع اہلسنت“ کو ملاحظہ کیا جس میں اس کتاب کے مصنف دیوبندی ساجد بھانڈ کئی جگہ کی الگ الگ عبارتوں کو شامل کرتے ہو ئے لکھتا ہے۔

”پیر کرم شاہ لکھتے ہیں (اور انہیں بھیجا ہم نے آپ کو مگر سراپا رحمت بنا کر) اب ہم قرآن وحدیث اور اکابرکے اقوال پیش کرتے ہیں جن سے ثابت ہو تا ہے کہ رحمۃ اللعالمین مختلف لوگوں کیلئے بولا گیا ہے۔خود اللہ جل شانہ نے قرآن کو رحمۃ اللمومنین کہا ہے ارشاد ربانی ہے ونزل من القرآن ماھو شفاء ورحمۃ اللمومنین  مومنین صرف اس عالم میں ہی نہیں بلکہ عالم جنات میں بھی مومن ہیں تو قرآن ہر عالم میں بسنے والے مومنوں کیلئے رحمت ہے یو ں کہیے کہ بواسطہ مؤمنین قرآن بھی رحمت ہے ہر ہر عالم کیلئے یعنی رحمت اللعالمین(سورۃ بنی اسرائیل) 

بخاری شریف میں ایک روایت میں طاعون کو رحمۃ اللمومنین کہا گہا ہے۔(بخاری جلد ۲) 

اسی طرح شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ نے بوستان میں حاکم وقت کی تعریف کرتے ہو ئے لکھا۔

                توئی سایہ لطف حق برزمین          پیمبر صفت رحمۃ اللعالمین 

                       (بوستان ص:۵۱۱،فاروقی کتبخانہ ملتان) 

    حضرت مجدد الف ثانی لکھتے ہیں انبیاء علیھم الصلوات التسلیمات رحمت عالیمانند کہ حضرت حق سبحانہ وتعالیٰ ایشانرابرائے ہدایت خلق مبعوث ساختہ است (دفتر سوم مکتوب ۷۱) 

انبیائے علیھم الصلوات والتسلیمات رحمت للعالمین ہوتے ہیں کہ جن کو حق تعالیٰ نے لوگوں کی ہدایت کیلئے بھیجا ہے۔

   حضرت خواجہ فریدالدین مسعود گنج شکر راحت القلوب میں صالحین کی صحبت کے بارے میں حدیث مبارکہ نقل کرتے ہو ئے فرماتے ہیں ”صحبۃ الصالحین نورورحمۃ اللعالمین“ دیکھئے یہاں پر صالحین کی صحبت کو رحمۃ اللعالمین کہا گیا ہے۔(دفاع اہلسنت جلد ص:۳۶۷) 

    اسی طرح دیوبندیوں کا یہ مناظر اپنی عقل کے گھوڑے دوڑاتے ہو ئے۔

مولانا روم علیہ الر حمہ کی مثنوی کا شعر    

  جملہ  دانیان ہمیں  گفتہ       ہست دانا رحمۃ اللعالمین  

                (مثنوی دفتر اول ص:۵۰۱) 

نتا کہ نورش کا مل آید در زمین      تاجراں را رحمۃ اللعالمین  

               (مثنوی دفتر چہارم ص:۹۱)

حضرت شاہ ابوالمعالی  کا شعر 

    شاہ گیلانی ترا حق در وجود            رحمۃ اللعالمین آوردہ است   

                     (تحفہ قادریہ ص۹۴ اردو)

علامہ ابن حزم کے حوالہ سے نقل کیا گیا کہ انھوں نے ”احکام کو رحمۃ اللعالمین قراردیا 

              (الاحکام فی اصول القرآن ص۰۵۳ جزا)

فوائد الفوائد کے حوالے سے لکھا گیا ہے حضرت امیر حسن علی سنجری کے ملفوظات کو جمع کرتے ہیں تو مقدمے میں ان کیلئے رحمۃ اللعالمین لفظ استعمال کرتے ہیں:

ان سب کے بعد ساجد دیوبندی لکھتا ہے ”ہم پو چھنا چاہتے ہیں بریلوی مفتیان کرام سے کہ ان  جیسے اولیاء اور محبوبان خدا کے بارے میں ان کا کیا فتویٰ ہے کیا یہ بھی معاذ اللہ گستاخان رسول ہیں۔۔؟؟جواب دیجئے اب خاموشی کس بات کی؟

ان حوالہ جات سے یہ بات واضح ہو گئی کہ اگر رحمۃ اللعالمین صرف آپ ﷺ ہی کی صفت ہو تی تو یہ حضرات دیگر پر اس صفت کا اطلاق نہ کرتے۔(دفاع اہل سنت ص:۴۶۷)

اسی طرح ساجد بھانڈ نے اور بھی اکابرین اہل سنت کی عبارتیں پیش کیں جن سے اس نے یہ بات ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے کہ مولوی رشید احمد گنگوہی کا فتویٰ اپنی جگہ پر درست ہے اور علماء بریلی اگر گنگوہی کو گستاخ کہتے ہیں تو ان سبھی اولیاء کرام وبزرگان دین کو گستاخ سمجھیں۔ 

اعتراض کا جواب اور ساجد  بھانڈ کی جہالت:

سب سے پہلے ہم ایک بار پھر سے مولوی رشید احمد گنگوہی کا فتویٰ نقل کرتے ہیں:

دیوبندیوں کا مولوی لکھتا ہے:

سوال:لفظ رحمۃ اللعالمین مخصوص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے یا ہر شخص کو کہہ سکتے ہیں۔

(جواب) لفظ رحمۃ اللعالمین صفت خاصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نہیں ہے بلکہ دیگر اولیاء وانبیاء اور علماء ربانیین بھی موجب رحمت عالم ہو تے ہیں اگر چہ جناب رسول اللہ سب میں اعلیٰ ہیں لہٰذا اگر دوسرے پراس لفظ کو بتاویل بول دیوے تو جائز ہے۔(فتاویٰ رشیدیہ صفحہ نمبر۷۰۲) 

اس پر کئی علماء اہلسنت  نے ناراضگی کا اظہار کیا۔جس میں ہم نے پہلے ہی حضرت مولانا محمد عمر اچھروی صاحب کا بیان نقل کرد یا ہے ”نبی ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے تمام عالمین کی رحمت بنا کر بھیجا۔اب اور کون عالمین ہیں۔جن کے یہ بھی رحمت بن سکتے ہیں۔جیسا کہ رب العٰلمین کہنے کے بعد تمام عالمین میں کسی دوسرے رب کی ضرورت نہیں۔اگر کوئی مانے تو اس نے شرک فی التوحید کیا ہے ایسے ہی رحمۃ اللعلمین کے اقرار کے بعد کوئی عالمین کی رحمت نہیں کہلا سکتا اور اگر تسلیم کرے تو مشرک فی الرسالت ہو گا“         (مقیاس حنفیت صفحہ:۰۱۲) 

 اب یہ بیان جاری کس کیلئے ہوا یہ دیکھنا ہے ساجد بھانڈ دیوبندی نے تو اکابرین اہل سنت کی عبارتیں اور کچھ اشعار کے اپنی من مرضی تشریح کر کے مولوی رشید احمد گنگوہی کے فتویٰ کی پارساہی بیان کر نی چاہی لیکن چونکہ اکابرین علمائے دیوبند کی تاریخ حضور علیہ السلام کی شان میں گستاخیوں سے پر ہے ایسے میں یہ کہنا کہ ”لفظ رحمۃ اللعالمین صفت خاصہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہے اس لئے کہ بتاویل کسی دوسرے پر بھی اس کا اطلاق کیا جاسکتا ہے تو یہ اصول بزرگان دین وائمہ اہلسنت کا کہیں ملتا اور یہ بیشک کفر ہے۔اس کی ایک مثال ہم یوں لیتے ہیں کہ حاکم اور آقا کو قرآن میں رب کہا گیا(مجازی طور پر)اب اگر کوئی مولوی رشید احمد گنگوہی کے اسی اصول کی بناء پر یہ کہے کہ معاذ اللہ اللہ رب العزت کا رب العٰلمین ہو نا اسکی صفت خاصہ نہیں اسلئے کہ قرآن اور دیگر مقامات پر حاکم اور آقا کو رب کہا گیا ہے تو بیشک وہ مشرک ہوا اسلئے کہ پہلا جملہ جو اس نے ادا کیا وہ صفات الٰہیہ کا انکار ہے اور اسی قسم کی صفات کو دوسرے حاکم وغیرہ کیلئے تسلیم کرتا ہے۔اسی بناء پر یہ مشرک ہوا اور اگر کہنے والا مجازی طور پر کسی کو حاکم،آقا کو رب کہتا ہے تو یہ اسکی تاویل ہو ئی اس لئے کہ مجازی اور حقیقی میں فرق ہو تا ہے لیکن چونکہ گنگوہی صاحب کے نزدیک تو بتاویل بھی بولنا صفت خاصہ کو خاص نہیں رکھتا تویہ اصول قرآن عظیم کی نصوص کی خلاف ورزی کر تا ہے تب بھی مولوی رشید احمد گنگوہی کافر وگستاخ ہی قرار دیا جائے گا۔اسی طرح حضور علیہ السلام کا رحمۃ اللعالمین ہو نا صفت خاصہ ہے اور جو صفت حضور علیہ السلام کیلئے ہے وہ کسی اور کیلئے نہیں مانی جاسکتی اس لئے کہ حضور سب میں اعلیٰ ہیں ہاں حضور علیہ السلام کے صدقے دوسرے بزرگان دین رحمۃ اللعالمین ہیں اس میں کوئی خرابی نہیں آتی لیکن جس کا صدقہ ہے اسی کی برابری اس طرح کی جائے کہ حضور علیہ السلام کی طرح سبھی لوگ (بزرگان دین واولیاء عزام) رحمۃ اللعالمین ہیں تو اس میں حضور علیہ السلام کی صفت خاصہ کو دوسروں پر ثابت کرنا  ہے اور یہ گستاخی ہے اس لئے کہ حضور علیہ السلام کی کوئی عام بشر برابری نہیں کرسکتا ہاں حضور علیہ السلام کے صدقے مانا جائے تو اس میں کوئی خرابی نہیں۔

نبی کریم رحمت اللعالمین ہیں:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہر نبی کیلئے ایک دعا مقبول تھی جو اس نے دنیا میں کرلی لیکن میں چاہتا ہوں کہ اپنی دعا کو آخرت میں اپنی امت کی سفارش کیلئے محفوظ رکھوں۔(بخاری باب کتاب الدعوات) 

اس حدیث پاک میں جو بیان کیا گیا ہے اس سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رحمت ہیں کوئی اور نبی اس طرح رحمت نہیں۔یہی وجہ تھی کہ آپ کی دنیا میں تشریف آوری سے قبل بھی لوگ اسی رحمت سے فائدہ اٹھاتے تھے۔

محمد صلی اللہ علیہ وسلم  نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہو تا:

حدیث قدسی ہے:میری عزت وعظمت کی قسم،اگر میں آپ ﷺ کو پیدا نہ کرتا تو جنت کو بھی پیدا نہ کرتا اور اگر آپ کو پیدا نہ کرتا تو پھر دنیا کو بھی پیدا نہ کرتا (دیلمی،الفردوس)

ایک اور حدیث قدسی ہے:محبوب! اگر آپ کو پیدا نہ کرتا تو کائنات ہست وبود کو بھی وجود میں نہ لاتا،

(تفسیر روح المعانی) 

ان احادیث قدسیہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ کائنات کی ہر شئے حضور علیہ السلام کے صدقے بنائی گئی ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی حضور علیہ السلام کی طرح رحمۃ اللعالمین ہو بلکہ ہمیں یہاں بھی یہی ماننا پڑے گا کہ اگر دیگر انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام رحمۃ اللعالمین ہیں تو یہ بھی حضور کا صدقہ ہے۔

   چونکہ منافقین دیوبند کیلئے حضور علیہ السلام کی صفات پر ایمان لانا زہر کا پیالہ پینے کے مصداق ہے یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ حضور علیہ السلام کی شان وعظمت گھٹانے کیلئے نئے نئے اصول گڑھتے رہتے ہیں۔اسکی ایک مثال حفظ الایمان میں بھی نظر آتی دیوبندیوں کے حکیم الامت مولوی اشرف علی تھانوی نے حضور علیہ السلام کے علم غیب کو صرف اس اصول سے ماننے کا انکار کر دیا کہ بعض غیوب کی باتیں تو جانور،درندے،بچے اور عام لوگ بھی جانتے ہیں جو ایک دوسرے سے مخفی ہوتے ہیں تو حضور علیہ السلام کا بعض علوم غیبیہ پر مطلع ہو نا کون سی خاص بات ہے؟جیسا کہ عبارت یوں ہے ”دریافت طلب یہ امر ہے کہ اس غیب سے مراد بعض غیب ہے یا کل غیب۔اگر بعض علوم غیبیہ مراد ہیں تو اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی کیا تخصیص ہے۔ایسا علم غیب تو زید وعمر بلکہ ہر صبی ومجنون بلکہ جمیع حیوانات وبہائم کیلئے بھی حاصل ہے کیونکہ ہر شخص کو کسی نہ کسی ایسی بات کا علم ہو تا ہے جو دوسرے شخص سے مخفی ہے“(حفظ الایمان ص:۵۱) یہ ہے دیوبندیوں کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عداوت،اب اگر یہی اصول لے لیا جائے تو شاید دنیا میں کوئی عالم ہی نہ رہا سبھی مدارس بند کرنے پڑ جائیں اسلئے کہ کوئی بھی عالم یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ وہ کل علم رکھتا ہے سبھی کے پاس کچھ ایسے علوم ہیں جو ایک دوسرے سے کم وبیش ہیں لیکن کوئی کل علم کا مالک نہیں اب اگر مولوی اشرف علی تھانوی کے اسی اصول کی بناء پر ہم یہ کہیں کہ مدرسوں میں عالمیت اور پڑھانے والے علماء اگر بعض علوم رکھتے ہیں تو اس میں انکی کیا تخصیص بعض علوم تو ہوٹلوں کے ویٹر،چمار آوارہ سڑک چھاپ لوگوں کو بھی ہو تا ہے تو ظاہر سی بات مولوی اشرف علی تھانوی کا یہ اصول سارے علماء کیلئے تو ہین کا باعث ہو گا اسی طرح اس کا یہ اصول حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شان اقدس میں گستاخی کا سبب بنا۔

ساجد بھانڈ دیوبندی نے قرآن عظیم کے تقدس کو پامال کیا:
اپنے اس ملعون مولوی کی ناپاک عبارت پر پردہ ڈالنے کیلئے دیوبندیوں کا یہ جاہل مناظر اپنی عقل کے گھوڑے دوڑاتے ہو ئے ایک نئی تفسیرکو جنم دینے کی کوشش کی ہے اور اس میں اپنی طرف سے رائے قائم کی۔مولوی ساجد بھانڈ دیوبندی اپنی کتاب دفاع اہل سنت میں لکھتا ہے:
                      وما ارسلنک الا رحمۃ اللعالمین۔
    قر آن مجید کی اس آیت مبارکہ میں اللہ جل شانہ نے آپ ﷺ کو یہ ارشاد فرمایا ہے کہ اے حبیب!آپ ﷺ کو ہم نے تمام جہاں والوں کیلئے صرف رحمت ہی بنا کر بھیجا ہے یہاں یہ نہیں فرمایا کہ صرف آپ ہی کو رحمۃ اللعالمین بنا کر بھیجا ہے“ 
                         (دفاع اہل سنت جلد ۱۔ص:۲۶۷) 
یہاں ساجد بھانڈ قرآن مقدس کی آیت کریمہ سے یہ بات واضح کر نا چاہتا ہے کہ اللہ نے یہ نہیں فرمایا کہ صرف حضور علیہ السلام ہی رحمۃ اللعالمین ہیں۔مطلب اس آیت کو بھی یہ جاہل مولوی رشید احمد گنگوہی کے گستاخانہ فتویٰ کی تائید میں بیان کر نا چاہتا ہے کہ اللہ رب العزت کا یہ فرمانا ہے کہ اے محبوب صرف آپ ہی کو ہم نے رحمۃ اللعالمین نہیں بنایا بلکہ اور بھی لوگوں کو بنایا ہے۔(معاذ اللہ) یہ ہے ساجد بھانڈ کی جہالت یا یوں کہیں کھلی منافقت جو کہ انکو وراثت میں ملی ہے۔
    قر آن مقدس کی کسی بھی تفسیر میں یہ نظر یہ بیان نہیں کیا گیا اور نہ کسی مترجم نے اس آیت مقدسہ سے یہ نظر یہ گڑھا۔
    اسی طرح ہمارے اکابرین اہل سنت کے جو بھی اشعار وعبارات اس بھانڈ مناظر نے اپنی اس کتاب میں درج کئے ہیں وہ سب اپنی جگہ درست ہے بالکل اسی طرح جس طرح سورۃ یوسف کی آیت نمبر ۰۴ میں ایک حاکم کیلئے رب کا استعمال کیا گیا اسی طرح ان حضرات کا دیگر اولیا کرام کیلئے رحمۃ اللعالمین کا اطلاق بے غبار ہے لیکن انکا مولوی رشید احمد گنگوہی کا فتویٰ بے غبار نہیں اسلئے کہ اس نے ہو بہو اسی صفت کواپنے پیر ومرشد حاجی امداد اللہ صاحب کیلئے استعمال کیا جس پر علماء اہل سنت نے گرفت کی ہے اور اسے شرک بالرسالت قرار دیا بالکل اسی طرح کہ کوئی شخص یوں کہے کہ لفظ رب العالمین ہو نا اللہ عزوجل کی صفت خاصہ نہیں بلکہ دیگر حاکم اور آقا کیلئے بھی رب کا لفظ استعمال کیا جا سکتا ہے۔تو اس شخص کے اس جملہ میں کھلا شرک ظاہر ہے اس لئے کہ وہ اسی طرح رب دوسرے حاکم اور آقا کو مان بیٹھا جس طرح اللہ رب العزت رب ہے۔اسی کے پیش نظر مولوی رشید احمد گنگوہی کا فتویٰ ملاحظہ فرمائیں کہ اس ملعون نے یہی صفت رحمۃ اللعالمین حضور علیہ السلام کیلئے کہا کہ ”لفظ رحمۃ اللعالمین صفت خاصہ رسول اللہ کی نہیں بلکہ دیگر انبیاء واولیا کرام کیلئے بھی استعمال ہو تا ہے۔“تو بے شک رشید احمد گنگوہی نے شان رسالت میں تو ہین کی اور اسے بالکل اسی قانون کے تحت شرک بالرسالت کہا جائے گا۔
چونکہ مولوی رشید احمد گنگوہی کے نزدیک حاجی امداداللہ مہاجر مکی صاحب بھی رحمۃ اللعالمین ہیں۔اور اس لئے حضور علیہ السلام کا رحمۃ اللعالمین ہو نا بقول دیوبندیہ وہابیہ نجدیہ کے اب حضور علیہ السلام کا رحمۃ اللعالمین ہو نا صفت خاصہ نہ رہا جب کہ اہل سنت کے یہاں ہو بہو حضور علیہ السلام کی طرح تو کوئی رحمت اللعالمین ہو ہی نہیں سکتا تو ظاہر سی بات یہ حضور علیہ السلام کی صفت خاصہ ہے جس طرح ہم کہتے ہیں کہ رب ہو نا اللہ عزوجل کی صفت خاصہ ہے اس لئے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کی طرح کوئی رب نہیں ہو سکتا اور اگر کسی پر اس کا اطلاق کیا جائے جیسا کہ سورہ یوسف میں موجود ہے کہ آقا اور حاکم کیلئے بھی رب کا لفظ اسکی صفت عطائی کی بناء پر استعمال کیا گیا بقول دیوبندی مولوی رشید احمد گنگوہی کے بتاویل استعمال کیا گیا ہے تو اہل سنت کے یہاں تو یہی اصول پایا جاتا ہے کہ عطائی کے اعتبار سے(بقول گنگوہی کے”بتاویل“) کسی اور کیلئے صفت رب کا اطلاق اللہ جل شانہ کے رب ہونے کی صفت کو خاص ہی رکھتا ہے لیکن اگر جدید مذہب دیوبندیہ نجدیہ کا اصول دیکھا جائے تو انکے یہاں تو عطائی ہو بتاویل ہو اگر کسی اور پر صفت کا اطلاق ممکن ہو گیا تو وہ صفت خاصہ نہیں رہتی جیسا کہ مولوی رشید احمد گنگوہی لکھتا ہے ”لفظ رحمۃ اللعالمین صفت خاصہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہے اس لئے کہ بتاویل کسی دوسرے پر بھی اس کا اطلاق کیا جاسکتا ہے“۔مطلب تاویلاً بھی کسی کیلئے اگر رحمۃ اللعالمین کا لفظ استعمال ہو گیا تو اب وہ حضور علیہ السلام کیلئے صفت خاصہ نہیں رہی یہ ہے انکی رسول اللہ سے دشمنی اور یہی وجہ ہے کہ جب ان لوگوں نے حاجی امداداللہ مہاجر مکی کو رحمۃ اللعالمین کہا تو علمائے اہل سنت کو فکر لاحق ہو ئی اسلئے کہ یہ حضور علیہ السلام کی صفت خاصہ کا انکار کرتے ہو ئے اسی صفت کا حامل حاجی امداداللہ مہاجر مکی کو بنانے میں لگ گئے اور علمائے اہل سنت نے ان پر فتویٰ صادر فرمایا۔
     اگر دیوبندیوں کے یہاں اب بھی انکا اصول باطل نہیں ہے تو اللہ سبحانہ تعالیٰ کیلئے بھی یہی تحریر کر دیں کہ اللہ عزوجل کا رب ہو نا اسکی صفت خاصہ نہیں اسلئے کہ کئی جگہ حاکم اور آقا کیلئے بھی اس لفظ کا استعمال کیا گیا۔دیکھتے ہیں دیوبندیوں کا علم اور عقیدہ کس طرح ثابت ہو تا ہے گدھے کے عضو تناسل کی طرح یا اہل ایمان کی طرح۔
جاہل منافقین دیوبندیہ سن لو!!
علمائے احناف اہلسنت نے یونہی نہیں اکابرین دیوبندپر فتویٰ کفر صادر فرمایا بلکہ انکی فطرت میں منافقانہ انداز چھپا ہوا ہے یہ حضور علیہ السلام کے کھلے دشمن ہیں۔
ملاحظہ ہو اکابرین احناف اہلسنت کی عبارات جہاں ان ذمہ داران علماء کرام نے اپنا دینی فریضہ ادا فرمایا:
 ٭حضرت مولانا محمد عمر اچھروی صاحب کا بیان نقل کرد یا ہے ”نبی ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے تمام عالمین کی رحمت بنا کر بھیجا۔اب اور کون عالمین ہیں۔جن کے یہ بھی رحمت بن سکتے ہیں۔جیسا کہ رب العٰلمین کہنے کے بعد تمام عالمین میں کسی دوسرے رب کی ضرورت نہیں۔اگر کوئی مانے تو اس نے شرک فی التوحید کیا ہے ایسے ہی رحمۃ اللعلمین کے اقرار کے بعد کوئی عالمین کی رحمت نہیں کہلا سکتا اور اگر تسلیم کرے تو مشرک فی الرسالت ہو گا“         (مقیاس حنفیت صفحہ:۰۱۲) 
ئ٭حضرت مولانا حسن علی رضوی صاحب لکھتے ہیں ”دنیا جانتی ہے کہ ہم اہل سنت حضور نبی اکرم رسول محترم سیدنا محمد مصطفےٰ احمد مجتبےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کے سوا خواب وخیال یا تصورات کی گہرائیوں میں بھی کسی کو رحمۃ اللعالمین ماننے کو تیار نہیں کیونکہ ایۃئ مبارکہ:وماارسلنٰک الا رحمۃ اللعلمین صرف اور صرف اس ایک ذات اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے نازل ہوئی ہے لیکن حیرت ہے دیوبندیوں وہابیوں نے اپنے اندرونی بغض رسول کے باعث رحمۃ اللعالمین کی بے مثال صف رسول کو بھی متنازعہ بنانے کی بھر پور کوشش کی اور مولوی قاسم نانوتوی صاحب مولوی رشید احمد گنگوہی صاحب اور اشرف علی تھانوی صاحب کے پیرو مرشد جناب حاجی امداداللہ صاحب مہاجر مکی کو رحمۃ اللعالمین بناکر پیش کر دیا۔۔۔الخ“
(محاسبہ دیوبندیت بجواب مطالعہ بریلویت ج:۱۔ص:۷۹۱۔۸۹۱)
وضاحت: ہم نے مولانا عمر اچھروی صاحب کے بیان کی وضاحت تو پہلے ہی کر دی اور باقی حضرت مولانا حسن علی رضوی صاحب کا بیان تو آپ نے ایک پرفریب کتاب (مطالعہ بریلویت) کا علمی رد فر مایا ہے اس کتاب کا مصف ”خالد محمودمانچسٹروی“ اپنے وقت کا بہت بڑا کذاب شخص تھا جس نے اپنی اس کتاب میں علماء احناف اہلسنت کو بدنام کرنے کیلئے بے شمار جھوٹ اور مکرکا سہارا لیا جس کے جواب میں حضرت نے اپنی اس کتاب میں یہ بیان تحریر فرمایا اس غم وغصہ کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ دیوبندیوں کی گستاخیاں دن بدن بڑھتی جارہی تھیں اور جب ان لوگوں نے آیت مبارکہ”وماارسلنک الارحمۃ اللعالمین“ کو اپنے بزرگوں اور ملعون اکابرین کا مصداق ٹھہرایا تو حضرت سے رہا نہ گیا اور واضح بیان فرمایا کہ یہ آیت مبارکہ صرف رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت کو بیان کرتی ہے نہ کہ اس سے مراد دوسرے علماء واولیا،اور بیشک یہی درست بھی ہے۔
    اسی طرح مولانا ظفر الدین بہاری علیہ الر حمہ اور مولانا صدیق نقشبندی صاحب کہ جن کے نا م کا رونا دیوبندیوں کا بھانڈ مناظر ساجددیوبندی نے رویا ان کا بیان مولوی رشید احمد گنگوہی کے اس فتویٰ کے رد میں تھا کہ جس میں اس نے پہلے تو حضور علیہ السلام کیلئے لفظ رحمۃ اللعالمین کی صفت خاصہ کا انکار کیا اور دوسری جگہ اپنے مولویوں کے لئے اور یہاں تک کے اسکے پیروکار خود اسکے لئے اسی صفت کا اظہار کرنے لگے۔جبکہ اکابرین اہلسنت کے یہاں لفظ رحمۃ اللعالمین صفت خاصہ حضور علیہ السلام کی ہی ہے اور دوسرے انبیاء واولیا،ائمہ کرام وبزرگان دین کیلئے اس لفظ کا استعمال اس غرض سے نہیں کہ وہ اس آیت کے مصداق ہیں بلکہ انکے لئے صرف اس لئے استعمال کیا گیا کہ انکا رحمۃ اللعالمین ہو نا حضور علیہ السلام کا ہی صدقہ ہے۔جبکہ دیوبندیوں کے یہاں حضور علیہ السلام کی صفت خاصہ کا انکار اور اسکو دوسرے پر اطلاق بالکل اسی طرح ہے کہ کوئی کہے کہ اللہ عزوجل کا رب ہو نا اسکی صفت خاصہ نہیں اسلئے کہ قرآن عظیم ودیگر مقامات پر آقا اور حاکم کیلئے بھی لفظ رب کا اطلاق موجود ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

Hassamul Harmain Ka Pas Manzer

اہلسنت پر اعتراضات کے جوابات

22 Rajjab Ke Kunde Aur Munafikeen