Fareb Najdiya Risala E Suwem 3

 وسعت علم نبی کے دشمن


                                                                            Download Book




فریب
 نجدیہ 
رسالہ سوم
وسعت علم نبیﷺ کے دشمن ؟


از سعد حنفی
تحریک اصلاح عقد



               کیا حضور علیہ السلام کی وسعت علم قرآن میں نہیں ؟

       محترم دوستوں السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبر کاتہ جیسا کہ ہم نے یہ سلسلہ "فریب نجدیہ"اس مقصد کے تحت شروع کیا ہے کہ عوام اہلسنت ایک آسان زبان میں ان نجدی وہابیوں کے مکروفریب کو سمجھ سکیں۔جس کے تحت ہم اپنے دو رسالے آپ کے سامنے پیش کر چکے ہیں اب ہم تیسرا رسالہ پیش کررہے ہیں جس میں "براہین قاطعہ" نامی کتاب میں ایک ناپاک عبارت پر ان نجدیوں کی چالبازیاں ملاحظہ کریں گے  کہ کس طرح اس کتاب میں ان منافقین نجدیہ نے حضور علیہ السلام کی شان میں گستاخیاں کرتے ہوئے اپنے ناجائز باپ ابلیس کی مدح خوانی کی ہے اور جب علمائے اہل سنت نے ان کی گرفت کی تو کس طرح مسلمانوں کو دھوکا دینے کیلئے مکر کئے ہیں ۔اور عوام میں کس طرح اپنی بے معنی تاویلات پیش کیں ۔
       اس معاملہ میں علمائے حرمین شریفین نے بھی اپنے فتاویٰ صادر کئے اور اپنی مبارک تقاریظ بھی ہندوستان کے علمائے اہل سنت تک روانہ کیں ۔لیکن ان منافقین نے بجائے توبہ کرنے کے اپنی ان ناپاک عبارتوں کا ہی انکار کر دیا مطلب انکے انکار سے یہ عبارتیںلاوارث ہوچکی تھیں اور اب بڑا مسئلہ یہ تھا کہ ان کتابوں کو زمین بوس کر دیں یا جلا دیں لیکن ایسا کرتے تو شاید انکے آقا انگریزاور یہودیوں کی امداد ملنا بندہو جاتی اسی لئے کچھ خاموشی اختیار کی اور عوام میں اپنی اس تحریک کو دھیرے دھیرے عام کیا۔
      ہم اس رسالہ میں آپ کو ان سبھی واقعات سےآگاہ کروائیگے اور انکی بے معنی تاویلات کا پول کھول آپریشن بھی کر یںگے ۔( انشاء اللہ عزوجل ) 

   









      ﷽       
      تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے جو خالق کائینات اور روز جزا کا مالک ہے جس نے اپنے محبوب کا نام محمد رکھا اور اسکے نور کی تخلیق کے بعد اس نورمحمدیﷺ کو اپنے قریب سے قریب تر رکھا جس نےاپنے ا س محبوب کے مراتب مخلوقات میں سب سے اعلیٰ وبالا فر مائے جس نے ان سے محبت کرنے کو اپنی محبت بتایا ،اور اسی رب العزت نے اپنے محبوب کے ذکر کو اونچا فر مایا انہیں رحمت اللعالمین بنایا ،اس کی ذات کوسب میں اعلیٰ انکے وصف لاجواب ،ارے بھائی یہ کیا ہو گیا ابھی ابھی تو ہم نے اپنی تحریر کی شروعات میں یہ لکھا کہ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے لیکن اب یہ کیا ہو گیا ؟یہاں تو تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہونی تھیں رسول اللہﷺ کی کیسے شروع ہو گئی تو اسکا جواب ہے مومن کا دل جس کو اللہ رب العزت نے اپنے محبوب کی محبت سے منور کیا ہے ،اور جس کے دل میں شمع محبت رسولﷺ روشن نہیںسمجھ لو وہ منافق ہے اسلئے کہ منافقین اپنے انہیں اصولوں کی بناء پر تو رسول اللہ کی توہین وتنقیص کرتے ہیں ،ایک آیت پڑھتے ہیں اور فوراً اسکے مخالف میں حضور علیہ السلام کے اوصاف لے آتے ہیں ۔تاکہ رب تعالیٰ کی حمد وثنا کی آڑ لیکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کیں جائیں۔
      بہر کیف منافقین کا یہ معاملہ عہد رسالت سے ہی چلا آرہا ہے ان لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سےعداوت رکھی آپ کی آل واصحاب کی شان میں گستاخیاں کیںجو آج تک قائم ہے ،رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا '"ان ممااخاف علیکم رجل قرأالقراٰن حتی اذا روئیت بہجتہٗ علیہ وکان ردائہ الاسلام اعتراہ الی ماشآء اللہ انسلخ منہ ونبذہ وراء ظھرہ وسعٰی علی جارہ بالسیف ورماہ بالشرک قال قلت یانبی اللہ ایھما اولیٰ بالشرک المرمی اوالرامی؟قال بل الرامی۔"
ترجمہ:یعنی مجھے تم پر ایک ایسے آدمی کا اندیشہ ہے جو قرآن پڑھے گا حتیٰ کہ اس کی روشنی اس پر دکھائی دینے لگے گی،اور اس کی چادر(ظاہری روپ)اسلام ہوگا۔یہ حالت اس کے پاس رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا،پھر وہ اس سے نکل جائے گا اسے پس پشت ڈال دے گا،اور اپنے(مسلمان)ہمسائے پر تلوار اٹھائے گااور اس پر شرک کا فتویٰ جڑے گا،راوی کا بیان ہے کہ میں نے عرض کیا:یانبی اللہ!دونوں میں شرک کا حقدار کون ہوگا؟جس پر فتویٰ لگا یا فتویٰ لگانے والا،آپ نے فرمایا:
                        فتویٰ لگانے والا (مشرک ہوگا)
       اس روایت کو حافظ ابن کثیر علیہ الرحمۃ نے پارہ نمبر۹، سورۃ الاعراف ،آیت نمبر 75یعنی واتل علیہم نبأالذی اٰتینا ہ آیاتنا فانسلخ منھا …آلایۃ۔کی تفسیر میںنقل کیا اور لکھا ہے:ھذا اسناد جید یعنی اس روایت کی سند جید،عمدہ اور کھری ہے۔
 ملاحظہ ہو!1-تفسیرابن کثیر جلد۲صفحہ۲۶۵،امجد اکیڈمی لاہور۔
  کچھ ایسا ہی پس منظر شیخ محمد بن عبدالوہاب نجدی کے متعلق ہے جس نے حجاز مقدس میں مسلمانوں کے درمیان فساد کیا ۔اور صرف اپنی شریعت کو منوایا جو اسکی شریعت نہ مانتے انہیں قتل کرواتا انکا خون بہاتا اور ایمان والوں پر شرک کے فتویٰ چلاتا یہودیوں کی شازش جب حجاز میں کامیاب ہوگئی تو ان لوگوں نے ملک ہندوستان میں اسی نجدی تحریک کو پروان چڑھانے کیلئے چند ایمان فروش مولویوں کو خریدا اور انکے ذریعے اسی تحریک کو عام کیا گیا جس کو شیخ نجدی نے حجاز میں مسلمانوں میں فساد اور فتنہ پیدا کرنے کیلئے جنم دیا تھا ۔
       حضور علیہ السلام کی یہ پیش گوئی سچ ثابت ہوئی اور شیخ نجداس حدیث کا مصداق ثابت ہوا اس لئے کہ یہ خود شیخ نجد اور اسکے ماننے والوں نے امت مسلمہ پر جو فتاویٰ لگائے وہ شرک کے ہیں ،انہیں ہر جگہ شرک نظر آتا ہے اگر کوئی کام حرام ہو تو وہاں بھی شرک کا فتویٰ کہیں کفر کا معاملہ ہو تو وہاں بھی شرک کا معاملہ کہیں بدعت حسنہ دیکھی تو وہاں بھی شرک کا فتویٰ حتیٰ کہ بہت سے جائز امور میں بھی انہیں شرک نظر آتا ہے جیسا کہ شیخ نجد کی کتاب"کتاب التوحید"اور ہندوستان میں" تقویۃ الایمان" نامی کتاب کے سیاق سباق سے کھلا پتہ چلتا ہے۔
     بہر کیف ہندوستان جہاں انگریزوں کے درو حکومت میں ہی یہودیوں کی شازش کا اثر نظر آنے لگا تھامطلب وہابی مذہب کی ابتدا ہو چکی تھی ان حالات کو مد نظر رکھتے ہو ئے علمائے  اہل سنت نے بخوبی اپنے کام انجام دئیے اور ان باطل فرقوں کا پر زور طریقہ سے رد فر مایا انکے خلاف فتویٰ تکفیر جاری کئے گئے ان کا ہر طرف بائیکاٹ شروع ہو چکا تھا ۔ایسے عالم میں ایک کتاب( براہین قاطعہ)  شائع ہو ئی  جو کہ دیوبندیوں کے اکابر مولوی خلیل احمد انبٹھوی کے نام سے چھپی یوں تو اس میں بہت سی غلط باتیں بحث کا موضوع بنی رہی ان میں ایک عبارت یہ بھی ہے کہ:
       "شیطان اور ملک الموت کا حال دیکھ کر علم محیط زمین کا فخر عالم کو خلاف نصوص قطعیہ کے بلا دلیل محض قیاس فاسدہ سے ثابت کر نا شرک نہیں تو کون سا ایمان کا حصہ ہے ،شیطان وملک الموت کو یہ وسعت نص سے ثابت ہوئی فخر عالم کی وسعت علم کی کون سی نص قطعی ہے"( براہین قاطعہ،ص:15)
       دوستوں ملاحظہ کیا آپ نے کہ جس علم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے ماننا شرک بتایا جار ہا ہے اسی کو شیطان اور ملک الموت کیلئے مانا جا رہا ہے ،اب بتائیے دیوبندیوں نے یہاں شرک کی کونسی تعریف کو جنم دے دیا ہم ایمان والوں میں تو اللہ عزوجل کی ذات وصفات میں کسی کوبھی شامل کر نا شرک کہلاتا ہے لیکن ان نجدی دیوبندیوں کے اکابرین کو دیکھو انکے یہاں خدا تین ہیں ایک تو اللہ رب العزت دوسرا شیطان اور تیسرا ملک الموت ،ذرا سوچئے کچھ ہی دیر قبل ہم نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ بیان کی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا جس نے کسی مسلمان کو مشرک کہا وہ خود مشرک ہو جائے گا کیا یہاں دیوبندی اکابرین مشرک نہیں ٹھہرے ،اس لئے کہ اگر وسعت علم محیط زمین خاصہ رب العزت کے ہے تو اب یہ کسی اور کیلئے کس طرح تسلیم کی جائے گی کہ شرک نہ ٹھہرے۔اس لئے کہ شیطان اور ملک الموت کیلئے جس علم کی بات کررہے ہیں اسی کو تو حضور علیہ السلام کیلئے ماننا شرک تسلیم کررہے ہیں پتہ چلا دیوبندیوں نے شیطان اورملک الموت کے علم کو تو شرک نہیں مانا بلکہ شیطان اور ملک الموت کے علم کے برابر علم حضور علیہ السلام کیلئے ماننا شرک قرار دیا ہے مطلب ان دیوبندی وہابیوں کے نزدیک شیطان اور ملک الموت کا علم محیط زمین ماننا شرک نہیں یا پھر یوں کہئے کہ شیطان اور ملک الموت کو ہی خدا کا شریک مان لیا ہے اسی لئے تو انکے لئے ماننا شرک نہیں لیکن فخر عالم صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے ماننا شرک ہے ۔
  ذرا غور کیجئے دیوبندی کونسے دیوکے بندے ہیں :
 اب حضور علیہ السلام کی حدیث مبارکہ جو ہم نے پیش کی اس کے پیش نظر دیوبندی وہابی بھی نجدی شیخ کی حمایت میں امت مسلمہ پر بے دلیل اور بے وجہ ہی شرک کے فتویٰ لگارہے ہیں ،اور حدیث مبارکہ میں آقاکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فر مادیا کہ مسلمانوں کو مشرک کہنے والا خود مشرک ہو جائے گا دیکھئے یہ کس طرح مشرک ثابت ہوئے خود اپنے ہی فسادی اصول کی بناء پر ۔
 کیا حضور علیہ السلام کیلئے علم محیط زمین پر قرآنی نصوص نہیں ؟
یہ نجدی منافقین کا فریب ہے اور یہ اپنے اسی مشن پر لگے ہو ئے ہیں جس پرعہد رسالت کے منافقین کام کرتے تھے ،ان کا مقصد بھی حضور علیہ السلام کے اوصاف کا انکار اور ان میں عیب نکالنا تھا اور انکا بھی وہی کام ہے :
قرآن پاک میں اللہ عزوجل ارشاد فر ماتا ہے :وَعَلَّمَکَ مَالَم تَکُن تَعلَمُoتر جمہ : اور آپ کو ان تمام چیزوں کا علم عطا فر مادیا ہے جس کو آپ (پہلے) نہیں جانتے تھے (سورۃ النساء آیت 113)
اس آیت کی تفسیر میں امام فخر الدین محمد بن ضیائ الدین رازی متوفی606ھ لکھتے ہیں:اور اس کا دوسرا محمل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام اولین کی خبروں کا علم عطا فر مایا،اسی طرح اللہ آپ کو منافقین کے مکر اور ان کے حیلوں کی خبر دے گا ،پھر فر مایا یہ آپ پر اللہ کا فضل عظیم ہے یہاں غور کر نا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق کو جو عطا فر مایا اس کے متعلق ارشاد فر مایا: وما اوتیتم من العلم الاقلیل( الاسراء:85) اسی طرح اللہ تعالیٰ نے تمام دنیا کو قلیل فر مایا :قل متاع الدنیا قلیل ( النساء:77) اور نبی ﷺ کو جو کچھ دیا اس کے متعلق فر مایا : وکان فضل اللہ علیک عظیما، سو جس کے سامنے ساری دنیا کا علم اور خود ساری دنیا قلیل ہے تو جس کے علم کو وہ عظیم کہہ دے اس کی عظمتوں کا کون اندازہ کر سکتا ہے ( تفسیر کبیر)
اور اب حدیث مبارکہ میں خود رسول اللہ ﷺ کا بیان ملاحظہ فر مالیجئے :امام ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ تر مذی متوفی 679ھ روایت کرتے ہیں:حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فر مایا :آج رات میرا رب تبارک وتعالیٰ میرے پاس بہت حسین صورت میں آیا،یعنی خواب میں اس نے کہا یا محمد! کیا تم جانتے ہو کہ مقرب فرشتے کس چیز میں بحث کررہے ہیں میں نے کہا نہیں،آپ نے کہا پھر اللہ نے اپنا ہاتھ میرے دو کندھوں کے درمیان رکھ دیا حتیٰ کہ میں نے اس کی ٹھنڈک اپنے سینہ کے در میان محسوس کی سو میں نے جان لیا جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمینوں میں ہے اللہ تعالیٰ نے فر مایا اے محمد! کیا تم جانتے ہو کہ مقرب فر شتے کس چیز میں بحث کررہے ہیں میں نے کہاہاں!کفارات میں ۔الحدیث( سنن تر مذی :3244)
امام تر مذی نے اس حدیث کو ایک اور سند کے ساتھ روایت کیا ہے اس میں یہ الفاظ ہیں: پس میں نے جان لیا جو کچھ مشرق اور مغرب کے درمیان ہے( سنن تر مذی3245)
      اب جن منافقین کو صرف اپنے مولیٰ ابلیس کا ہی علم زیادہ سمجھ میں آرہا ہو اور اس کو حضور علیہ السلام کیلئے کوئی نصوص قرآنی واحادیث میں نہ نظر آئے تو اس میں اس کی منافقت کی غلطی ہے جیسا کہ حضور علیہ السلام نے واضح ارشاد فر مادیا ہے کہ منافق کی حلق سے قرآن نہیں اترے گا ۔
     اسی طرح انہیں دیوبندی اکابرین میں ایک اشرفعلی تھانوی بھی ہے جس نے اپنی کتاب حفظ الایمان میں حضور علیہ السلام کے علم غیب کے بارے میں یہ لکھ دیا کہ"اس غیب سے مراد بعض غیب یا کل غیب۔اگر بعض علوم غیبیہ مراد ہیں تو اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا تخصیص ہے ۔ایسا علم غیب تو زید عمرو بلکہ ہر صبی ومجنون بلکہ حیوانات وبہائم کے لئے بھی حاصل ہے"( حفظ الایمان صفحہ15) دیکھئے کہیں ان منافقین کو شیطان اور ملک الموت کے علم سے کم حضور علیہ السلام کا علم نظر آتا ہے اور کہیں بعض علوم غیبیہ کا اقرار کربھی لیتے ہیں تو اس میں حضور علیہ السلام کی کوئی خصوصیت تسلیم نہیں کرتے اور کہدیتے ہیں کہ ایسا علم غیب تو ہر صبی(بچوں)ومجنون( پاگلوں)بلکہ حیوانات( جانوروں) کیلئے بھی حاصل ہے۔( معاذ اللہ) 
آئیے اب ذرا دیوبندیوں کی صفائی اور اس کی علمی حیثیت ملاحظہ کرلیتے ہیں :
براہین قاطعہ کی اس عبارت پر علمائے اہل سنت نےمصنف براہین قاطعہ کا رد فر مایا اور اس سے مناظرہ بھی کیا گیا جہاں مصنف براہین قاطعہ مولوی خلیل احمد انبیٹھوی کی ذلت آمیز شکست ہو ئی پھر اس کے بعد 1905ء میں امام اہل سنت نے ان دیوبندی منافقین کے بارے میں آخری فیصلہ لینے کی خاطر علمائے حرمین سے رجوع کیا جس پر علمائے حرمین شریفین نے بھی ان دیوبندی مولویوں کی تکفیر کر دی اور اپنی تقاریظ میں ان مولویوں کا رد فر مایا ۔علمائے حرمین کے فتاویٰ اور انکی تقاریظ '"حسام الحرمین" کے نام سے 1906ء میں شائع ہو چکی تھی ۔جس پر دیوبندیوں نے بہانے بازیوں کا بازار گرم کیا اور امت کو دھوکا فریب دینے کیلئے نئے نئے حربے استعمال کئے جانے لگے ۔انہیں  دھوکا اور فر یب کا ایک نمونہ انکی کتاب "المہند علی المفند" ہے آئیے اس کتاب میں براہین قاطعہ کی عبارت پر مولوی خلیل احمد انبیٹھوی کا جواب ملاحظہ کرتے ہیں :ہمارے حضرات اس شخص کے کافر ہونے کا فتویٰ دے چکے ہیں جو یوں کہے کہ شیطان ملعون کا علم نبی علیہ السلام سے زیادہ ہے، پھر بھلا ہماری کسی تصنیف میں یہ مسئلہ کہاں پایا جا سکتا ہے ،ہاں کسی جزئی حادثہ حقیر کا حضرت کو اس لئے معلوم نہ ہونا کہ آپ نے اس کی جانب توجہ نہیں فرمائی آپ کے اعلم ہونے میں کسی قسم کا نقصان نہیں پیدا کر سکتا "( المہند علی المفند ,انیسویں سوال کا جواب صفحہ57)
     آپ نے ملاحظہ کیا کہ جب مولوی خلیل احمد انبیٹھوی دیوبندی صاحب نے کس طرح اپنی کتاب براہین قاطعہ سے یو ٹرن لیتے ہوئے کھلا جھوٹ بک دیا ہے ،جہاں براہین قاطعہ میں اسی مولوی خلیل احمد انبیٹھوی نے شیطان اور ملک الموت کے علم محیط زمین کو مانتے ہو ئے حضور علیہ السلام کے علم کا انکار کرتے ہوئے لکھا کہ فقط قیاس فاسدہ کی بناء پرفخر عالم صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے وسعت علم محیط زمین ثابت کرنا شرک نہیں تو کون سا ایمان ہے۔اور دوسری طرف اسی عبارت کے جواب میں علمائے حرمین کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہو ئے پہلے تو اسکا انکار ہی کر دیا کہ  " ہماری کسی بھی تصنیف میں مسئلہ کہاں پایا جاسکتا ہے "جبکہ براہین قاطعہ کے کھلے ہو ئے الفاظ اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ مولوی خلیل احمد نبیٹھوی کی گردن حسام الحرمین کی زد میں آتے ہیں لٹک گئی ہے اپنی ملعون عبارت کا جواب تو ان سے نہیں بن پڑا تو اس سے انکار ہی کر دیا اور یہ بھی کہہ دیا کہ ہمارے حضرات نے ایسے شخص کو کافر ہونے کا فتویٰ دے دیا ۔پتہ چلا کہ علمائے حرمین کے فتاویٰ حسام الحرمین نے مولوی خلیل انبیٹھوی کو اپنی ہی عبارت کو کفریہ اور خود کو کافر کہنے پر مجبور کر دیا تھا ۔المہند میں مولوی خلیل احمدا نبیٹھوی کی ایک اور مکاری ملاحظہ فر مائیے کہتا ہے"ہاں کسی جزئی حادثہ حقیر کا حضرت کو اس لیے معلوم نہ ہونا کہ آپ نے اس کی جانب توجہ نہیں فر مائی آپ کے علم ہونے میں کسی قسم کا نقصان نہیں پیدا کر سکتا"ذرا غور کیجئے جس مسئلہ میں یہ مسلمانوں پر شرک کا فتویٰ جڑ رہے ہیں اب وہی مسئلہ حادثہ حقیرہے اور بھی ایسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ سب علوم حاصل ہیں جن کو براہین قاطعہ میں وسعت علم محیط زمین کا شیطان اور ملک الموت کے  لیے ثابت کیا گیا بس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں پتہ تو صرف اس لئے کہ انھوں نے اس کی جانب توجہ نہیں فر مائی "یہاں تو مولوی خلیل احمد انبیٹھوی نے شرک کے مسئلہ کو حقیر بتا دیا اور اگر حقیر نہیں بتایا تو اس علم کو حقیر بتا دیا جس کے بارے میں اس نے خود براہین قاطعہ میں لکھا "شیطان اور ملک الموت کا حال دیکھ کر علم محیط زمین کا فخر عالم کو خلاف نصوص قطعیہ کے بلا دلیل محض قیاس فاسدہ سے ثابت کر نا شرک نہیں تو کون سا ایمان کا حصہ ہے ،شیطان وملک الموت کو یہ وسعت نص سے ثابت ہوئی فخر عالم کی وسعت علم کی کون سی نص قطعی ہے( براہین قاطعہ،ص:15)مطلب حضور علیہ السلام کیلئے جو اس نے المہند میں لکھا کہ آپ کو تمام مخلوق میں سب سے زیادہ علم ہے تو کیا یہ بھی اس نے قیاس فاسدہ کی بناء پر مان لیا۔ مطلب المہند کا عقیدہ براہین قاطعہ کی رو سے اس کا قیاس فاسدہ ہے اور براہین قاطعہ کا عقیدہ نص سے ثابت ہے ۔
      براہین قاطعہ میں لکھا کہ شیطان اور ملک الموت کو یہ وسعت نص سے ثابت ہے فخر عالم کی وسعت علم کی کون سی نص ہے؟تو اس کا جواب تو اب خود مولوی خلیل احمد انبیٹھوی بیان کریں یا پھر انکے نامراد متبعین بیان کر یں، اسلئے کہ جس کے بارے میں مولوی خلیل احمد انبیٹھوی نے" المہند" میں لکھتا ہے "کسی جزئی حادثہ حقیر" کے بارے میں آپﷺ کو علم اسلئے نہ ہو نا کہ آپﷺ نے اس کی جانب توجہ نہ فر مائی مطلب شیطان اور ملک الموت کو جو "وسعت علم محیط زمین" نص سے ثابت ہے وہ حضور علیہ السلام کیلئے "جزئی حادثہ حقیر"ہے جس کی جانب خود حضور علیہ السلام نے توجہ نہ دی اس وجہ سے انہیں نہ معلوم ہوا ۔تو بتائیے حقیر حادثہ علم کے بارے میں شیطان اور ملک الموت کے لیے نص ثابت ہو چکی اور فخر عالم ﷺ علیہ وسلم کیلئے کونسی نص سے ثابت کیا گیا جو" المہند" میں بیان کیا گیا اسلئے کہ حضور علیہ السلام کے علم کے سامنے تو براہین قاطعہ کی عبارت کہ وسعت علم محیط زمین جزئی حادثہ حقیر ثابت ہوئی مطلب ایک طرف حادثہ حقیر کیلئے لکھتے ہیں فقط قیاس فاسدہ سے فخر عالم کیلئے یہ علم ثابت کرنا شرک نہیں تو کون سا ایمان ہے اور دوسری طرف علمائے حرمین کے سامنے بیان کرتے ہیں "نبی کریم علیہ السلام کا علم حکم واسرارغیرہ کے متعلق مطلقاً تمامی مخلوقات سے زیادہ ہے "
                                                        ( المہند صفحہ57)
تو حضور علیہ السلام کیلئے اتنا بڑا دعویٰ علم کیلئے اب انکے پاس کون سی نص پائی گئی یا پھر یوں کہا جائے، بقول براہین قاطعہ اپنے قیاس فاسدہ کی بناء پر نصوص کی خلاف ورزی کی گئی اور جو" وسعت علم محیط زمین" شیطان اور ملک الموت کیلئے نص سے ثابت ہے وہ حضور علیہ السلام کیلئے ایک حقیر حادثہ بتا دیا مطلب براہین قاطعہ کی عبارت کی رو سے المہند کا عقیدہ قیاس فاسدہ ثابت ہوا ۔اور یہی عقیدہ عقائد علمائے دیوبند کے نام سے شائع ہوا ۔
ان دونوں عبارتوں سے ایک بات سمجھ لیجئے :(1)براہین قاطعہ میں وسعت علم محیط زمین کو شیطان اور ملک الموت کیلئے نص سے ثابت مانا گیا ۔دوسری طرف اسی عبارت کے جواب میں مولوی خلیل احمدانبیٹھوی نےاس کو حادثہ حقیر بتا دیا اور وہ بھی ایسا علم کہ جو حضور علیہ السلام کیلئے تو ہے مگر آپﷺ نے اس کی طرف توجہ نہ فر مائی مطلب وسعت علم محیط زمین حضور علیہ السلام کیلئے ایک حقیر سی بات ہے حضور علیہ السلام کے علم وسعت کا بیان کرنا مخلوق کے بس کی بات نہیں ۔
(2) حضور علیہ السلام کیلئے یہ وسعت علم محیط ثابت کرنا شرک نہیں تو کون سا ایمان ہےیہ بات براہین قاطعہ میں لکھی گئی ۔لیکن جیسے ہی علمائے حرمین کا چابک لگا بول بد ل گئے اور جس مسئلہ میں مسلمانوں کو مشرک بتایا گیا اسے حادثہ حقیر سے تعبیر دے دیا مطلب معمولی سی بات بتا دی گئی اور وہ بھی اس طرح کہ حضور علیہ السلام کو تمام مخلوق میں سب سے زیادہ علم ہے مطلب اللہ عزوجل کے بعد حضور علیہ السلام سب سے بڑے عالم اور اگر کسی بات کا علم حضور علیہ السلام کو نہیں تھا تو فقط اس لئے کہ انھوں نے اس پر توجہ نہ دی مطلب علم تو ہے مگر اس طرف حضور علیہ السلام کا دھیان نہ جانے کی وجہ سے وقتاً آپﷺ کے علم میں وہ بات نہ رہی ہوگی ۔ایسا کہا ۔
(3)پھر سرے سے اس عبارت کا ہی انکار کر دیا کہ ہماری کسی بھی تصنیف میں یہ مسئلہ کہاں پایا جاسکتا ہے۔اب اس کو براہین قاطعہ کا جواب سمجھا جائے یا براہین قاطعہ کے عقائد کا علمائے حرمین شریفین کے ڈر سے انکار کرنا کہا جائے ۔
      بہر کیف ان سب باتوں کو دیکھتے ہو ئے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ "براہین قاطعہ" کی عبارت مولوی خلیل احمد انبیٹھوی کے گلی کی ہڈی بن چکی تھی جس کی وجہ سے اسے مناظرہ بہاولپور میں ذلت آمیز شکست کا سامنا کر نا پڑا اور دوسری طرف علمائے حرمین کا ایسا وار چلا کہ کہیں سےاس عبارت کی تاویل نہیں بن پڑی تو خود مولوی خلیل احمد انبیٹھوی جو براہین قاطعہ کےمصنف ہیں اس اپنی اس تصنیف اور اس عبارت کا ہی انکار کر دیا اور جب المہند نامی کتاب میں اس کی تاویل کرنی بھی چاہی تو حضور علیہ السلام کی ویسی شان بیان کر نی پڑی جو انکے یہاں شرک ثابت ہوئی اور امت مسلمہ پر شرک کا فتویٰ لگانے والے خود مشرک ہو بیٹھا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا کہ جس نے کسی مسلمان کو مشرک کہا وہ خود مشرک ہو جائے گا یہاں اس حدیث پاک کا مفہوم کھل کر سامنے آگیا ۔
براہین قاطعہ کی عبارت پر ایک اور تاویل کا علمی جائزہ:یوں تو اس کی تاویل خود مولوی خلیل احمد انبیٹھوی کے بس کی نہیں تھی یہی وجہ ہے کہ اس نے "المہند" میں اپنی اس عبارت کا ہی انکار کر دیا جبکہ وہ عبارت براہین قاطعہ میں اپنے انہیں الفاظ کے ساتھ موجود تھی جس پر علمائے حرمین شریفین نے اس کی تکفیر فر مائی تھی ۔پھر بھی دیوبندیوں کے شیخ الاسلام "حسین احمد ٹانڈوی" کی جانب سے ایک ناکام کوشش کی گئی ۔
  چنانچہ اپنی قوم کے افراد کو کچھ ان الفاظوں میں تسلی دیتے ہیں:
        "مجدد بریلوی کہتا ہے کہ براہین قاطعہ میں حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی نے تصریح کی ہیکہ بدعتیوں کے استاد( یعنی ابلیس) کا علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ ہے،بریلوی کے عربی الفاظ یہ ہیں فانہ صرح فی کتابہ البراہین القاطعہ بان شیخھم ابلیس اوسع علماً من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔مسلمانوں تمہیں خدا کی قسم ذرا انصاف سے کہو یہ بے حیائی اور جھوٹ نہیں تو اور کیا ہے،نہ کسی کتاب میں یہ تصریح مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی لکھے ہے نہ مولانا خلیل احمد صاحب نے نہ ان کے کسی مرید اور خادم نے ،مجدد صاحب نے بیحیائی کا برقع پہن کر جو الزام دل میں آیا لگا دیا اگر کچھ بھی ہمت اور حیا ہے تو یہ تصریح ان بزرگوں کے کسی رسالہ میں دکھلا دیں ورنہ لعنۃ اللہ علی الکاذبین  کا طوق گلے میں ڈال کر کودیں۔"
                                            ( الشہاب الثاقب صفحہ58) 
        واہ واہ کیا کہنے کیا زبان ہے دیوبندیوں کے شیخ الاسلام کی خود ہی جھوٹ بکنا اور خود ہی لعنۃ اللہ علی الکابین کا ورد کر نا بہت خوب یہی تو دیوبندیوں کی خصوصیت ہے جو انکے آقا ابلیس نے انہیں عطا کی ہے۔ مولوی حسین احمد ٹانڈوی دیوبندی" حسام الحرمین" سے ایک عربی عبارت نقل کرتا ہے:
     "فانہ صرح فی کتابہ البراہین القاطعہ بان شیخھم ابلیس اوسع علماً من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم "
      پھر اس پر لکھتا ہے
        "یہ جھوٹ نہیں تو اور کیا ہے،نہ کسی کتاب میں یہ تصریح مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی نے لکھی نہ مولانا خلیل احمد صاحب نے "
        سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اعلیٰ حضر ت رضی اللہ عنہ نے اس عبارت کا مفہوم بیان کیا کہ دیوبندی مولویوں ( گنگوہی وخلیل) کی یہ تصریح ہے اورپھر ان کی اصل عبارت کو بھی نقل کر کے بیان کر دیا صرف اپنی مرضی کی تصریح نہیں بیان کی بلکہ اس عبارت کو ہوبہو پیش بھی کیا ہے، جس کا انکار خود مولوی خلیل احمد انبیٹھوی نے "المہند"میں اور مولوی حسین احمد دیوبندی نے اپنی اسی کتاب"الشہاب الثاقب" میں کیا ۔
       اعلیٰ حضرت عظیم البرکت مجدد دین ملت نے صرف تصریح نہیں بیان کی، بلکہ اصل عبارت ملعونہ نقل کی اور علمائے حرمین نے تصریح بھی ملاحظہ کی اور اسکے ساتھ ساتھ اس عبارت کو ہو بہو ملاحظہ بھی کیا۔مولوی حسین احمد ٹانڈوی دیوبندی نے "حسام الحرمین"کی پوری عبارت نہ پیش کرتے ہو ئے ادھوری عبارت کو پیش کیا اس لئے کہ اگر پوری عبارت پیش کر دیتے تو یہ جملہ کیسے لکھتے:
   "یہ جھوٹ نہیں تو اور کیا ہے۔الخ"
       مطلب اعلیٰ حضرت کی عبارت کو ادھورا پیش کرنا اور اس میں خیانت کرنا خود دیوبندی مولویوں کا وطیرہ رہا اوراپنی اس عادتِ خبیثہ کو یہ اعلیٰ حضرت پر الزام دیتے رہے جبکہ اعلیٰ حضرت نے ہر جگہ مکمل عبارتیں پیش کیں اور انکی ہر ہر عبارت کو علمائے حرمین نے ملاحظہ کرتے ہو ئے ان اکابرین دیوبند کی تکفیر فر مائی۔
ملاحظہ ہو "حسام الحرمین" کی مکمل عبارت:
                      "فانہ صرح فی کتابہ البراھین القاطعہ واماھی واللہ الاالقاطعہ لما امر اللہ بہ ان یوصل بان شیخھم ابلیس اوسع علما من رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم وھذا انصہ الشنیع بلفظ الفظیع ص47 شیطان وملک الموت کو الخ ای ان ھٰذہ السعۃ فی العلم ثبتت اللشیطان وملک الموت بالنص وای نص قطعی فی سعۃعلم رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم حتی ترد بہ النصوصُ جمیعا ویثبت شرک وکتب قبلہ ان ھٰذا الشرک لیس فیہ حبۃ خردل من ایمان "
                                                 ( حسام الحرمین ص:83)
   یہ ہے حسام الحرمین کی وہ عبارت جس پر حسین احمد ٹانڈوی نے اعلیٰ حضرت کو جھوٹا کہا اور صاف لکھ دیا کہ ایسی تصریح نہ مولوی رشید احمد گنگوہی نے لکھی نہ خلیل احمد  انبیٹھوی نے لکھی ۔جبکہ براہین قاطعہ میں یہ عبارت موجود ہے اور اعلیٰ حضرت نے جہاں اس عبارت کو نقل کیا وہاں کا حصہ تو مولوی حسین احمد ٹانڈوی نے نقل ہی نہیں کیا اسلئے کہ انہیں تو یہ دعویٰ ہانکنا تھا کہ ہمارے کسی بھی مولوی نے ایسی تصریح نہیں کی ،جبکہ اعلیٰ حضرت نے پیش کردی ،حسین احمد ٹانڈوی نے جہاں تک عبارت نقل کی اسکے آگے ہی اعلیٰ حضرت نے یہ لکھا بلفظ الفظیع (دیوبندی مولویوں کے برے الفاظ یہ ہے)اور حوالہ دے کر صفحہ نمبر بتا کر اس عبارت کو نقل کیا جس کا انکار ،حسین احمد ٹانڈوی نے کیا۔
        محترم دوستوں اب یہاں انصاف سے کام لیجئے اور غور کیجئے جھوٹ کون بک رہا ہے ،عبارتوں کو کاٹ چھاٹ کر کون پیش کررہا ہے ،اپنی ملعون عبارت کا انکار کون کررہا ہے کیا اسی کو دیوبندی اپنا شیخ الاسلام مانتے ہیں اگر ایسے شخص کو شیخ الاسلام کہا جائے کہ جو صرف جھوٹ بکتا ہو تو سمجھ لیجئے یہ مسلمانوں کا شیخ الاسلام تو نہیں ہاں البتہ یہ شیطانوں کے مذاہب کا شیخ ہو سکتا ہے ۔
      ا سی طرح اس نے اعلیٰ حضرت عظیم البرکت مجدد دین ملت رضی اللہ عنہ پر ایک اور طنز کرتے ہوئے لکھا کہ:
        "لکھتا ہے(اعلیٰحضرت) کہ براہین قاطعہ کا مصنف یعنی مولانا خلیل احمد صاحب اور انکے استاد وغیرہ اس بات پر ایمان لائے ہیں کہ ابلیس خدا کا شریک ہے اصلی الفاظ بریلوی کے دیکھنے ہوں تو صفحہ17 سطر 20 پر دیکھو لکھتا ہے کہ آمن بان ابلیس شریک لہ تعالیٰ بھلا کسی ادنیٰ عقل والے کو یقین آسکتا ہے کہ مولانا رشید احمد گنگوہی صاحب اور ان کے شاگرد خدام ایسا عقیدہ رکھتے ہوں جو شرک وبدعت کے جانی دشمن اور سچی توحید پھیلانے والے تھے "
                                 (الشہاب الثاقب صفحہ68 حسین احمد ٹانڈہ)
      واہ جناب جو لوگ حضور علیہ السلا م کی شا ن میں منہ بھر گالیاں بکے گستاخیاں کریں انہیں سچی توحید پرست بتادیااور ثبوت کے طور پر وہ عبارت اسی براہین قاطعہ میں موجود ہے جہاں مولوی خلیل احمد انبیٹھوی نے لکھا ہے کہ"شیطان اور ملک الموت کا حال دیکھ کر علم محیط زمین کا فخر عالم کو خلاف نصوص قطعیہ کے بلا دلیل محض قیاس فاسدہ سے ثابت کر نا شرک نہیں تو کون سا ایمان کا حصہ ہے ،شیطان وملک الموت کو یہ وسعت نص سے ثابت ہوئی فخر عالم کی وسعت علم کی کون سی نص قطعی ہے
                                                 ( براہین قاطعہ،ص:56)
       اب یہاں آپ ہی غور کیجئے اور سوچئے کہ شرک کا کونسا معنی گڑھا گیا ہے۔جب اللہ رب العزت کی ذات وصفات میں کسی کو شریک کرنا شرک ہے تو جس علم کے حاصل ہونے کا دعویٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے شرک ہے تو ابلیس اور ملک الموت کیلئے کیسے شرک نہیں اور اگر ملک الموت اور ابلیس کیلئے یہ وسعت علم ثابت ہے تو حضور علیہ السلام کیلئے شرک کیسے ؟اور اگر یہ شرک مان لیاجائے تو ابلیس اور ملک الموت اللہ کے شریک کیسے نہ ہوئے ؟ کیا شرک کا معنی اکابرین دیوبندیہ کے نزدیک اس طرح ہیں کہ اللہ تعالیٰ ،ابلیس لعین،اور ملک الموت کی وسعت علم ایک سی ہے اگر ایک سی نہیں ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے وہی وسعت علم ماننا شرک کیسے یا پھر یوں کہئے ابلیس اور ملک الموت شریک خدا ہیں ۔
      جب شرک کا نام لے ہی لیا ہے تو ثابت کیجئے ابلیس اور ملک الموت کیلئے یہ وسعت علم محیط شرک کیوں نہیں ؟صرف اتنا کہہ دینے سے شرک کا فتویٰ تم پر سے نہیں ہٹنے والا کہ ابلیس اور ملک الموت کیلئے وسعت علم محیط زمین کا نص سے ثابت ہے ۔
"عبارات اکابر "میں مولوی سرفراز خان صفدر کی بے جا تاویل:
  براہین قاطعہ کی گستاخانہ عبارت پر لگے کفر کے داغ کو دھونے کیلئے جو ہتھکنڈا استعمال کیا شاید خود مصنف براہین قاطعہ مولوی خلیل احمد انبیٹھوی کو بھی نہیں پتہ تھا : چنانچہ مولوی سرفراز خان دیوبندی اپنے اکابرین پر سے فتویٰ کفر ہٹانے کی بے معنی کوشش کرتے ہو ئے سب سے پہلے مولانا عبدالسمیع رامپوری رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب انوار ساطعہ کی عبارت کو نقل کیااور اسکے بعد براہین قاطعہ کی مفصل عبارت نقل کرتے ہو ئے لکھا کہ یہ مولانا عبدالسمیع صاحب کی عبارت کا جواب تھا جو براہین قاطعہ میں دیا گیا۔مولوی سرفراز احمد نےخلیل احمد انبیٹھوی سے نقل کیا ہے کہ حضور علیہ السلام کا حاضروناظرہونا عقیدہ سے متعلق ہے اور عقیدہ قطعیات سے ثابت ہوتا ہے اور قیاس سے اس کا ثابت کرنا جہل ہے ،پہلے تو یہ عرض ہے کہ مولانا عبدالسمیع نے اس کو قیاس سے ثابت نہیں کیا بلکہ دلالۃ النص سے ثابت کیا ہے انکا مطلب یہ ہے کہ شیطان اور ملک الموت کو جب ادنیٰ درجہ کی لطافت حاصل ہے تو ان کو روئے زمین کا علم حاصل ہے تو حضور ﷺ کو اعلیٰ درجہ کی لطافت حاصل ہے تو آپ کو بطریق اولیٰ یہ علم حاصل ہو گا ابھی تک ان کو قیاس اور دلالۃ النص کے درمیان کا فرق بھی پتہ نہیں۔باقی رہا یہ کہنا کہ عقائد قطعیات سے ثابت ہوتے ہیں تو عقائد دوقسم کے ہوتے ہیں قطعی اور ظنی ۔
عقائدقطعی بھی ہوتے ہیں اور ظنی بھی :فتاویٰ رشیدیہ میں ہے کہ" اسمٰعیل قطعی جنتی ہے "تو اس کے قطعی جنتی ہونے پر کون سی آیت یا خبر متواتر ہے،نیز تھانوی صاحب بسط البنان میں لکھتے ہیں کہ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ حضور علیہ السلام کی شان تمام کمالات عملیہ اور علمیہ میں یہ ہے کہ "بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر"تو تھانوی کے پاس جو قطعی دلیل ہے خلیل احمد کو سنا دو نیز المہند میں علمائے دیوبند نے لکھا ہے کہ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے روضہ اقدس کی شان عرش سے زیادہ ہے اور انھوں نے اس بات کو اپنا عقیدہ قرار دیا تو کیا اس عقیدہ پر تمہارے پاس کوئی قطعی دلیل ہے؟اور تو ا ور المہند میں خلیل احمد انبیٹھوی نے جب اسی براہین قاطعہ کی عبارت پر سوال کا جواب دیا تو یہ نہیں لکھا کہ ہم نے اس کو دلائل قطعیہ ،نصوص قرآنی اور متواترہ سے ثابت کیا بلکہ جواب میں لکھا:
       " اس مسئلہ کو ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ نبی کریم علیہ السلام کا علم حکم واسراروغیرہ کے متعلق مطلقاً تمامی مخلوقات سے زیادہ ہے "
پھر چند سطر کے بعد لکھا کہ:
      "ہاں کسی حادثہ حقیر کا حضرت کو اس لیے معلوم نہ ہونا کہ آپ نے اس کی جانب توجہ نہیں فر مائی آپ کے اعلم ہونے میں کسی قسم کا نقصان نہیں پیدا کر سکتا "
                                                         (المہند صفحہ57)
       اب یہاں مولوی خلیل احمد انبیٹھوی نے بھی وہی بات کہہ دی جو مولانا عبدالسمیع رامپوری علیہ الر حمہ نے اپنی کتاب انوار ساطعہ میں لکھی ۔تو بجائے انوار ساطعہ کا جواب دینے کہ مولوی خلیل احمد انبیٹھوی تو علمائے حرمین کے سامنے خود انہیں کی صف میں کھڑے ہوگئے یہ نہیں کہا کہ ہم نے اس کا رد کیا ہے اور ہم نے جو لکھا وہ نصوص قطعی کے مطابق لکھا اور قیاس فاسدہ کا رد کیا ہے بلکہ اسی قیاس کا اظہار کرتے ہو ئے خود اسی بات کو قبول کیا ہے کہ حضور علیہ السلام کو تمام مخلوق میں سب سے زیادہ علم حاصل ہے اوراگر کوئی بات کا علم نہ ہو سکا تو صرف اس وجہ سے کہ انھوں نے اس جانب توجہ نہیں فر مائی ۔
      پتہ چلا کہ ساری زمین کا علم حضور علیہ السلام کو ہے اور اس کا اقرار خود مولوی خلیل احمد انبیٹھوی نے علمائے حرمین کے سامنے کر دیا ۔
       مولانا عبدالسمیع رامپوری علیہ الرحمہ نے اپنی عبارت میں بھی یہی لکھا کہ جب شیطان اور ملک الموت کی وسعت علم کا عالم یہ ہے تو سرور کائینات جو مخلوقات میں سب سےزیادہ علم رکھتے انکا عالم کیا ہوگا لیکن براہین قاطعہ میں اس کے برعکس لکھا گیا کہ شیطان اور ملک الموت کو تو وسعت علم نص سے ثابت ہے ،لیکن فخر عالم کیلئے یہ وسعت فقط قیاس فاسدہ سے ثابت کرنا شرک نہیں تو کونسا ایمان کا حصہ ہے ۔ مطلب نصوص قطعیہ کے حوالےسےیہاں یہ بات کہی جارہی ہے کہ نصوص قطعیہ سے شیطان اور ملک الموت کو یہ وسعت علم حاصل ہے لیکن حضور علیہ السلام کیلئے کوئی بھی نص ثابت نہیں،(بقول خلیل احمد انبیٹھوی،رشید احمد گنگوہی ،اور سرفراز احمد خانی کے) جبکہ علمائے اہل سنت نے اسکو نصوص قطعیہ سے بھی ثابت کیا ہے ۔دوسری بات یہ ہے کہ علمائے حرمین کے سامنے جواب دینا تھا تو وہی عقیدہ بیان کر دیتے جسے تم نصوص قطعیہ سے مانتے ہو وہ عقیدہ کیوں بیان کیا جو بقول تمہارے قیاس فاسدہ ہے اور شرک ہے۔
دفاع اہلسنت نامی کتاب میں ساجد خان کا بھی وہی رونا:
موجودہ حال میں دیوبندیوں میں ایک سے بڑھ کر ایک مکارلوگ پیدا ہورہے ہیں انہیں میں ایک نام "ساجد خان دیوبندی" کا ہے اس نے ایک کتاب ترتیب دی جس کانام "دفاع اہلسنت"رکھا حالانکہ یہ کتاب دفاع اکابرین دیوبند کی خاطر لکھی گئی اسلئے کہ دیوبندی کسی بھی طرح اہلسنت نہیں بس جس طرح مماتی حیاتی کا ڈھونگ امت کو دھوکا دینے کیلے رچا گیا اسی طرح خود کو اہلسنت کا نام دیا گیا جبکہ یہ پکے وہابی خارجی ہیں ۔
      بہرحال دیوبندی مولوی ساجد خان کی دفاع اہلسنت میں براہین قاطعہ کا دفاع ملاحظہ کیجئے ،جیسا کہ سرفراز خان نے اپنی کتاب "عبارات اکابر" میں براہین قاطعہ کی عبارت پررونا رویا وہی رونا یا یوں کہئے کہ وہی سب یہ اپنی کتاب میں نقل کر کے رویا جبکہ علمائے اہل سنت نے سرفراز خان کی جو دھجیاں بکھیریں ہیں کہ اب اس کے سامنے انکی "عبارات اکابر "کی موت آچکی ہے ۔
چلئے ساجد خان دیوبندی کی سنتے ہیں:
ساجد خان دیوبندی انوار ساطعہ کی عبارت کو نقل کرکے اس پر تبصرہ کرتا ہے:
     "خیال رہے کہ غیر ضروری الفاظ ترک کر دیئے گئے ہیں اور کچھ جملوں کا صرف مفہوم یا مطلب لکھ دیا گیا ہے،مولوی عبدالسمیع صاحب مؤلف "انوار ساطعہ" نے صرف "قیاس" گمان اور ظن سے کام چلایا ہے ،افسوس اس بات کا ہے کہ ان لوگوں کو صرف شیطان ہی نظر آتا ہے اور حضورﷺ کی ذات شریفہ کے مقابلہ میں اس کو لاتے ہیں ،پھر اگر کوئی ان کو ان کے قوانین اور انہی کی زبان میں جواب دے تو کافر،آخر کیوں؟عبارت کے آخری جملوں میں خود یہ اقرارکیا ہے"یعنی تماشہ یہ کہ اصحابِ محفل میلاد تو زمین کی تمام جگہ،پاک ناپاک مجالس مذہبی وغیر مذہبی میں حاضر ہونا رسولﷺ کا دعویٰ نہیں کرتے،ملک الموت اور ابلیس کا حاضر ہو نا اس سے بھی زیادہ تر مقامات،پاک ناپاک،کفر غیر کفر میں پایا جاتا ہے۔
  مولوی عبد السمیع لفظ"اس سے بھی زیادہ تر مقامات" لکھ کر بھی پکے ٹھکے مسلما ن رہے ۔                                                       
                                          ( دفاع اہلسنت جلد1۔ص:633)
جواب سنئیے:
                                 سب سے پہلے تو جماعت اہل سنت پر اعتراض کرنے سے پہلے منافقین دیوبندیہ کو چاہئے کہ اس عقیدہ کے بارے میں کچھ معلومات حاصل کر لیں ۔لیکن انسے یہ نہیں ہو گا اس لئےکہ انکا کام ہی ہے امت میں فساد برپا کرنا ،جماعت اہل سنت کے عقیدہ کی تحقیق تو دور ہےجو باتیں واضح طور پر کھلی سامنے ہیں اور جنکے دلائل نصوص قطعیہ سے ثابت ہیں انہیں بھی یہ اپنے من مانےمنگھڑت قیاس فاسدہ کی بناء پر بحث ومباحثہ کا موضوع بناکر امت میں فساد برپا کرتے پھرتے ہیں سب سے پہلے ہم چاہتے ہیں کہ عوام کے سامنے یہ بات واضح کر دیں کہ حضور علیہ السلام کا حاضر وناظر ہونے پر اہل سنت کا کیا موقف ہے ۔
  حاضر وناظر کیا ہے؟: قوت قدسیہ والا ایک مقام میں رہ کر اپنے ہاتھ کی ہتھیلی کی طرح تمام عالم کو دیکھے اور قریب ودور آواز سن سکتا ہوا اسے ناظر کہتے ہیں۔اور ایک ہی ساعت میں عالم کی سیر کرنے پر قادر ہو اور یہ اختیار خواہ روحانی ہو یا نورانی یا علمی ہو اسے حاضر کہتے ہیں ۔حضور ﷺ اس وقت یا ہر وقت یہاں موجود ہیں یہ ہمارا عقیدہ نہیں ہے ۔
حاضر وناظر کی تعریف :حضرت علامہ عبدالحکیم شرف قادری صاحب لکھتے ہیں :بے شک حاضر وناظر کے نظریہ کا تعلق حضور نبی کریمﷺ کے جسم اقدس کے ساتھ نہیں ہے اور نہ ہی آپﷺ کی بشریت کے ساتھ ہے بلکہ اس نظریہ کا تعلق آپ ﷺ کی نورانیت اور روحانیت کے ساتھ ہے۔
مناظراسلام حضرت علامہ سعید احمد اسعد صاحب لکھتے ہیں:
ہم اہل سنت وجماعت نبی مکرمﷺ کے جسم بشری کے ساتھ ہر جگہ موجود ہونے کا دعویٰ نہیں کرتے ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ جس طرح آسمان کا سورج اپنے جسم کے ساتھ آسمان پر ہے لیکن اپنی روشنی اور نورانیت کے ساتھ روئے زمین پر موجود ہے ۔اسی طرح نبوت کے آفتاب جناب حضرت محمدﷺ اپنے جسم اطہر ،جسم بشری کے ساتھ گنبد خضریٰ میں جلوہ گر ہیں لیکن اپنی نورانیت،روحانیت اور علمیت کے ساتھ ہر جگہ جلوہ گر ہیں۔( مسئلہ حاضر وناظر) 
اور اسی کا اظہار مولانا عبدالسمیع رحمہ اللہ صاحب نے کیا ہے جیسا کہ انوار ساطعہ کی عبارت موجود ہےاور جسے خود ساجد خان دیوبندی اور مولوی سرفراز خان نے اپنی کتب میں نقل کیا ہے کہ:
       "تماشایہ ہے کہ اہل محفل میلاد تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمین کی تمام پاک وناپاک جگہ اور مجالس مذہبی وغیر مذہبی میں حاضر ہونے کا دعویٰ نہیں کرتے"
                                                ( انوار ساطعہ صفحہ نمبر254)
 اور اسی عقیدہ کو آپ نے انوار ساطعہ میں دلائل سے ثابت کیا ہے ،اور ساجد خان دیوبندی اور مولوی سرفراز خان دیوبندی نے جو یہ لکھا ہے کہ مولانا عبدالسمیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فقط اپنے "قیاس"گمان اور ظن سے کام لیا بالکل جھوٹ ہے آپ نے شیطان اور ملک الموت کے بارے میں جہاں احادیث نقل کیں وہیں اپنے اس عقیدہ کا اظہار کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مخلوقات میں سب میں اعلم ہیںاسے بھی احادیث صحیحہ اور تفاسیر کی کتب سے ثابت کیا لیکن افسوس جو جس کی محبت اپنے دل میں چھپائے بیٹھے ہیں انہیں اسی کے بارے میں نصوص ودلائل نظر آئے گے ،دیوکے بندوں نے شیطان اور ملک الموت کے بارے میں "انوار ساطعہ"میں نصوص قطعیہ کو ملاحظہ کر لیا لیکن نبی مکرم ﷺ کیلئے انہیں اسی کتاب میں اسی عبارت میں کچھ نظر نہیں آیا اور اسے قیاس فاسدہ سمجھ کر بکواس کر دی کہ ،شیطان اور ملک الموت کیلئے وسعت علم محیط زمین تو ثابت ہے لیکن حضور علیہ السلام کیلئے کوئی نصوص ثابت نہیں تو قیاس فاسدہ سے اسے ثابت کرنا شرک نہیں تو کونسا ایمان کا حصہ ہے ۔
      یہ تو رہی ابلیس پرستوں کی ذہنی سوچ اب دیکھئے مولانا عبدالسمیع علیہ الرحمہ نے اہل سنت کے عقیدہ کو کس طرح احادیث کتب تفاسیر سے ثابت کیا ۔آپ لکھتے ہیں کہ :
   " اب محسوس عالم اجسام میں اس کی مثال سمجھئے کہ اگر کوئی آدمی دنیا کی مشرق سے مغرب تک کی آبادی کی سیر کرے تو وہ جہاں جائے گا چاند اور سورج کو موجود پائے گا ،پھر اگر وہ کہے کہ ایک ہی چاند وسورج ہر جگہ موجود ہیں تو تمہارے قاعدے سے چاہئے کہ وہ کافر ہو جائے کیونکہ اس نے چاند کو ہر جگہ موجود کہا حالانکہ تحقیق یہ ہے کہ نہ وہ مشرک ہے اور نہ کافر خاصا مسلمان ہے ۔تو اسی طرح سمجھو کہ جب سورج ہر جگہ یعنی ہفت قلیم میں موجود ہو کہ وہ چوتھے آسمان پر ہے اور روح نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو ساتویں آسمان پر علیین میں موجود ہے اگر وہاں سے آپ کی نظر مبارک تمام روئے زمین کی چند جگہوں اور مقاموں پر پڑ جائے اور فیضان احمد کے انوار کی کرنیں پوری مجلس کو سورج کی شعاع کی طرح ہر طرف سے گھیر لیں تو کیا بعید ومحال ہے ۔
      علامہ زرقانی نے ابوالطیب کا شعر شرح مواہب الدنیہ کی "فصل زیارت قبر شریف" میں نقل کیا ہے  
کالشمس فی وسط السماء ونور ھا                                                               
 یغشی البلاد مشارقا ومغاربا

یھدی الی عینک نور ا ثاقبا
کا لبدر من حیث التفت رایتہ 
جس طرح سورج آسمان کے بیچ میں ہے مگر اس کی روشنی مشرق سے لے کر مغرب تک پھیلی ہوئی ہے اور جس طرح چاند کہ تو جہاں سے اسے دیکھے وہیں سے وہ تیری آنکھوں میں نور بخشے گا ۔
فرق یہ ہے کہ سورج اور چاند کو دیکھنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے آنکھ کھول رکھی ہے جس کے ذریعہ سے ایک بینا آدمی دیکھ کر یہ کہہ دیتا ہے کہ چاند ہر جگہ موجود ہے لیکن ایک اندھا مادرزاد تو یہی کہے گا کہ چاند کہیں نہیں،بس اسی طرح روح نبوی کا دیکھنا بھی اللہ تعالیٰ کی عنایت پر موقوف ہے اگر وہ باطنی آنکھ کھول دے اور پردے اٹھا دے تو انسان ہر جگہ جلوئہ احمدی دیکھ سکتا ہے ۔علامہ زرقانی شرح مواہب جلد ثالث میں "تذکرئہ قرطبی" سے نقل کرتے ہیں۔
 ان موت الانبیاء انما ھو راجع الی ان غیبوا عنا بحیث لا ندر کھم وان کانوا موجودین احیاء ولایراھم احد من نوعنا الا من خصہ اللہ تعالیٰ بکرامۃ من اولیائہ۔موت انبیا کی حقیقت بس اتنی ہے کہ وہ ہم سے چھپا دیے گئے کہ ہم کو نظر نہیں آتے اگر چہ وہ زندہ موجود ہیں مگر ہم میں سے کوئی آنکھ انہیں نہیں دیکھ سکتی ہاں یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے کسی ولی کو دکھلا دے۔
امام شعرانی نے" میزان الشریعہ" میں لکھا ہے ۔ 
           قد بلغنا عن ابی الحسن الشاذلی وتلمیذہ ابی العباس المرسی وغیرہما انھم کانوا یقولون لو احتجبت رؤیۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طرفۃ عین ما اعددنا انفسنا من جملۃ المسلمین۔
    ابو الحسن شاذلی اور ان کے تلمیذ رشید ابوالعباس مرسی وغیرہ کے متعلق ہمیں پتہ چلا ہے کہ وہ کہا کرتے تھے اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار ایک لمحہ کیلئے بھی ہم سے اوجھل کر دیا جائے تو ہم اپنے تئیں خود کو مسلمان نہ سمجھیں ۔
       دیکھئے ابو الحسن شاذلی وغیرہ اولیائے کرام فر ماتے ہیں کہ اگر پلک جھپکنے کے برابر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے چھپ جائیں تو ہم اپنے تئیں مسلمان نہ جانیں۔(انوار ساطعہ صفحہ253)
یہاں پر مولانا عبدالسمیع صاحب علیہ الر حمہ نے امت محمدیہ ﷺ  کے اولیا ء کا حال بیان فر مایا ہاں یہ بات اور ہے جو قوم اولیاء اللہ کی جماعت سے محروم ہوجن کی جماعت میں ایک بھی ولی اب تک پیدا نہ ہوا ہو وہ کیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انوار ملاحظہ کر یں یہ منافق ان مادرزاداندھوں کی طرح ہیں جو سورج اور چاند کی موجودگی تو دور اسکی روشنی کو بھی محسوس نہیں کر سکتے:
 اور دیکھئے آپ نے حدیث پاک سے بھی اس کو ثابت کیا ہے ۔لکھتے ہیں :
  " معراج کی حدیثوں میں آپ ﷺ ارشاد فر ماتے ہیں میں نے تئیں انبیاء کی جماعت دیکھا کہ یہ موسیٰ علیہ السلام کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں،یہ عیسیٰ علیہ السلام پڑھ رہے ہیں اور یہ ابراہیم علیہ السلام پڑھ رہے ہیں۔فحانت الصلوٰۃ فاممتھم اتنے میں نماز کا وقت آگیا تو میں نے ان کی امامت کی۔
   اس کو مسلم نے روایت کیا ہے اور قرطبی نے ابن عباس سے یہ روایت کی ہے کہ بیت المقدس میں اللہ تعالیٰ نے آدم سے لے کر تمام انبیاء کو جمع کردیا اور سات جماعتیں حضور کے پیچھےتھیں۔
فتاویٰ سراجیہ کے باب مسائل متفرقہ میں ہے امامۃ النبی علیہ السلام لیلۃ المعراج لارواح الانبیاء علیہم السلام کانت فی النافلۃ            معراج کی شب نبی کریم ﷺ نے نفلی نماز میں ارواح انبیا کی امامت فر مائی۔
فقہ وحدیث کی ان روایات سے ثابت ہو گیا کہ جملہ پیغمبروں کی روحیں اپنے اپنے مقامات سے سمٹ کر بیت المقدس میں حاضر ہو گئیں اور یہیں آکر نماز پڑھی ۔
مشکوٰۃ میں مسلم سے روایت ہے کہ : ابن عباس رضی اللہ عنہما فر ماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مکہ مدینہ کے بیچ میں چلے جارہے تھے جب ایک جنگل سے گزرے تو حضور نے پو چھا کون سا جنگل ہے؟ صحابہ نے کہا یہ وادی الازرق ہے۔حضور نے فر مایا ،گویا موسیٰ علیہ السلام کو دیکھ رہا ہوں پھر حضور نے ان کا رنگ اور ان کے بالوں کا حال بیان فر مایا کہ موسیٰ دونوں کا نوں میں اذان کی طرح انگلیاںرکھے ہوئے لبیک کی آواز بلند کیے ہوئے اسی جنگل سے گزرے چلے جاتے ہیں ۔ابن عباس کہتے ہیں کہ ہم آگے چلے تو ایک پہاڑ کی گھاٹی پر پہنچے ۔حضور نے پو چھا یہ کون سی گھاٹی اور پہاڑ ہے؟صحابہ نے کہا یہ پہاڑ یا تو ہرشا ہے یا لفت ہے ۔آپ نے فر مایا گویا یونس علیہ السلام کو سرخ اونٹنی پر سوار پشمینہ کا جبہ پہنے دیکھ رہا ہوں ان کی اونٹنی کی مہار پوست خرما کی ہے اسی جنگل میں حج کیلئے لبیک کہتےہو ئے چلے جاتے ہیں ۔
                                                         ( مسلم شریف ) 
شیخ عبدالحق رحمۃ اللہ علیہ نے کہا "یہ بات متفقہ ہے کہ انبیائے کرام کی اپنی دنیوی زندگی کی طرح زندہ ہیں ۔لیکن عوام کی نظروں سے پوشیدہ ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی حقیقت اپنے حبیب لبیبﷺپر بے منام وبے مثال اور بے اشتباہ وبے اشکال ظاہر فر ما دی ۔
صاحب مواہب نے دو تین معنی بیان کیے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے ،کہا گیا ہے کہ وہ دیکھنا حقیقت رزق پاتے ہیں ،پھر اگر وہ اس حالت میں حج کریں تو کیا مشکل۔جیسا کہ مسلم شریف نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنی قبر مبارک میں کھڑے ہو کر نماز پڑھتے دیکھا۔علامہ قرطبی نے کہا کہ انبیاء کی روحوں کو عبادتیں بہت پیاری ہیں تو جوعبادت انہیں میسر آتی ہےکرتے رہتے ہیں۔
ان احادیث اور محدثین کی عبارتوں سے معلوم ہوا کہ ارواح انبیاء حج اور نماز وغیرہ من چاہی عبادتیں کرتی رہتی ہیں۔
      مشکوٰۃ کے "باب المعراج"میں بخاری ومسلم کی حدیث سب کو یاد ہو گی جس میں بیان کیا گیا ہے کہ رسول اللہﷺ پہلے آسمان پر حضرت آدم دوسرے پر حضرت یحییٰ وعیسیٰ ،تیسرے پر حضرت یوسف،چوتھے پر حضرت ادریس،پانچویں پر حضرت ہارون،چھٹے پر حضرت موسیٰ اور ساتویں پر حضرت ابراہیم علیہم الصلوٰۃ والسلام سے ملے۔(صحیح بخاری وصحیح مسلم) "( انوار ساطعہ صفحہ 255۔256)
اسی طرح قرآن کی تفاسیر بھی ملاحظہ کیجئے :
مولانا عبدالسمیع صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں :علامہ بیضاوی" فالمدبرات امرا" کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
اوصفات النفوس الفاضلۃ حال المفارقۃ فانھا تنزع عن الابدان غرقا ای نزعا شدید من اغراق النازع فی القوس وتنشط الی عالم الملکوت و تسبح فیہ فتسبق الی حظائر القدس فتصیر بشر فھاوقوتھا من المدبرات
                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                      (تفسیر بیضاوی 5/366) 
ترجمہ : یاتو یہ بات ہے کہ اس سے نفوس فاضلہ کی صفتیں مراد ہیں کہ قسم ہے نفوس ناطقہ فاضلہ کی جب وہ بدن سے نکلتی ہیں،خوش ہو کر عالم ملکوت میں جاتی ہیں وہاں تیرتی پھرتی ہیں اور اپنے شرف وقوت کے باعث مدبرات میں داخل ہو جاتی ہیں یعنی ان میں جو تدبیر عالم کرتے ہیں۔
روح البیان میں ہے: ثم ان النفوس الشریفۃ لا یبعد ان یظھر منھا آثار فی ھذا العالم سواء کانت مفارقۃ عن الابدان اولا(تفسیر روح البیان؛16/448)
پھر دس سطر کے بعد لکھا  بل ھو بعد مفارقتہ البدن اشد تاثیرا وتدبیر الان الجسد حجاب فی الجملۃ(تفسیر روح البیان؛16/448)
کچھ بعید نہیں کہ نفوس شریفہ سے اس عالم میں اثر ظاہر ہو خواہ وہ اپنے بدن میں موجود ہوں یا نکل گئے ہوں بلکہ بدن سے جدا ہوجانے کے بعد ان کی تاثیر وتدبیر زیادہ بڑھ جاتی ہے کیونکہ بدن عنصری ایک قسم کا حجاب تھا اور وہ اٹھ گیا ۔
علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کہا" انتباہ الاذکیاء" میں ہے:
    النظر فی اعمال امتہ والاستغفار لھم من السیئات والدعاء بکشف البلائ عنھم ولتردد فی اقطار الارض بحلول البرکۃ فیھا وحضور جنازۃ من مات من صالحی امتہ فان ھذہ الامور من اشعالہ کما وردت بذلک الاحادیث والآثار ۔اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ بات احادیث وآثار سے ثابت ہے کہ آپ اعمال امت پر نظر فر ماتےہیں ان کے گناہوں کی بخشش مانگتے ہیں بلا دور ہونے کی دعا فر ماتے ہیں،روئے زمین پر بر کت بانٹتے پھرتے ہیں اور امت کا کوئی نیک آدمی مرے تو اس کے جنازے میں تشریف لاتے ہیں ۔عالم برزخ میں یہ آپ کے اشغال ہیں۔
"روح البیان" میں سورہ ملک کے آخر میں ہے :
قال الامام الغزالی رحمہ اللہ تعالیٰ والرسول علیہ السلام لہ الخیار فی طواف العوالم مع ارواح الصحابۃ رضی اللہ عنہم لقد رآہ کثیر من الاولیاء 
                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                      (نفس مصدر:15/476)
اس سے معلوم ہوا کہ اس زمین ہی کی خصوصیت نہیں بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کی روحوں کے ساتھ تمام عالم میں پھرتے ہیں ۔اور بہت سے اولیاء نے اس کا مشاہدہ بھی کیا ہے۔( انوار ساطعہ ص:258) 
اب بھی دیوبندی منافقین یہی کہیں گے کہ مولانا عبدالسمیع صاحب رحمہ اللہ نے صرف اپنے"قیاس "اور گمان سے یہ باتیں لکھیں ۔جبکہ آپ نے قرآن کی تفسیر کتب احادیث اقوال محدثین ، وفقہ سے اس بات کی دلیل پیش کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعد وفات بھی اس عالم میں حاضر ہو ئے اور اپنے ہر ہر امتی کے اعمال کو ملاحظہ فر ماتے ہیں ۔
اب دیوبندی مولوی ساجد خان اور اسکے اکابر مولوی سرفراز خان کا یہ اعتراض کہ خود مولانا عبدالسمیع رحمہ اللہ نے یہ لکھا کہ"یعنی تماشہ یہ ہےکہ محفل میلاد تو زمین کی تمام جگہ،پاک ناپاک مجالس مذہبی وغیر مذہبی میں حاضر ہونا رسولﷺ کا دعویٰ نہیں کرتے،ملک الموت اور ابلیس کا حاضر ہو نا اس سے بھی زیادہ تر مقامات،پاک ناپاک،کفر غیر کفر میں پایا جاتا ہے۔مولوی عبد السمیع لفظ"اس سے بھی زیادہ تر مقامات" لکھ کر بھی پکے ٹھکے مسلما ن رہے ۔"
                                          ( دفاع اہلسنت جلد1۔ص:633)
       تو اس کا جواب ہم اس طرح دے گے کہ مولانا عبدالسمیع رامپوری ہوں یاآج کے اہل سنت اور یا پھر علمائے حرمین ہمارا یہی عقیدہ ہے کہ حضور علیہ السلام کو اللہ رب العزت نے جو وسعت علم عطا فر مائی وہ مخلوق میں کسی کونہیں حاصل ہے خواہ دیوبندیوں کے ابا ابلیس ہو یا ملک الموت فرشتہ سب مخلوق خدا ہیں اور ساری مخلوق میں سب سے افضل سب سے اعلیٰ فخر عالم رسول اللہ ﷺ کی ذات ہے ۔آپ کے علم سے زیادہ ابلیس کا علم بتانے والا کافر ہوگا ۔بلکہ آپﷺ کی کسی بھی فضیلت کو کسی دوسری مخلوق سے کم بتانے والا کافر وگستاخ ہو گا ۔
       اور بات اس عبارت کی جو مولانا عبدالسمیع صاحب علیہ الرحمہ نے لکھی :تو واضح ہو کہ انھوں نے یہاں اس بات کو لکھا "کہ محفل میلاد تو زمین کی تمام جگہ،پاک ناپاک مجالس مذہبی وغیر مذہبی میں حاضر ہونا رسولﷺ کا دعویٰ نہیں کرتے" مطلب یہ ہے کہ ہم ہر محفل میلاد اور ہر جگہ حضور علیہ السلام کے حاضر ہونے کا دعویٰ نہیں کرتے لیکن یہ بھی انکار نہیں کرتے کہ حضور علیہ السلام حاضر نہیں ہوسکتے۔یہ اختیار آپﷺ کو حاصل ہے اس لئے کہ شیطان اور ملک الموت کو اگر یہ اختیار حاصل ہے تو حضور علیہ السلام تو تمام مخلوق میں سب سے بڑے عالم ہیں ۔اسی بات کو انوار ساطعہ میں مولانا عبدالسمیع صاحب علیہ الرحمہ نے پوری وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے ۔انھوں نے یہ نہیں لکھا کہ شیطان اور ملک الموت کو یہ وسعت ہے اور رسول اللہ کیلئے ثابت کرنا شرک ہے ،بلکہ انھوں نے لکھا کہ جب شیطان اور ملک الموت کی وسعت علم اتنی ہے تو فخر عالم حضور ﷺ تو ان سبھی سے اعلیٰ وبرتر ہیں تو انکی وسعت علم کا عالم کیا ہو گا اوریہی بات دیوبندی اکابرین کے سینے میں جلن پیدا کر گئی اور فوراً لکھ دیا کہ" شیطان جو کہ ہمارا (دیوبندیوںکا)سب کچھ ہے اسکے لئےتو وسعت علم نص سے ثابت ہے مگر حضور علیہ السلام کیلئے کوئی نص ثابت نہیں۔اور اگر کوئی ثابت بھی کرے تو فقد قیاس فاسدہ سے ہی بیان کرے گا تو یہ شرک نہیں تو کون ساایمان ہے ؟
ملاحظہ کیا آپ نے پتہ چل گیاکہ دیوبندی مولوی خلیل احمد انبیٹھوی کیوں گستاخ اور ملعون قرار دیا گیا ۔
     جو صفائی المہند میں مولوی خلیل احمد انبیٹھوی نے دی ہے اس سے مولانا عبدالسمیع علیہ الر حمہ کی عبارت کی اور وضاحت مل جاتی ہے ۔جیسا کہ مولوی خلیل احمد انبیٹھوی نے لکھا :جیسا کسی ایسے بچہ کو جسے کسی جزئی کی اطلاع ہو گئی ہے یوں کہنا صحیح نہیں کہ فلاں بچہ کا علم اس متبحر ومحقق مولوی سے زیادہ ہے جس کو جملہ علوم وفنون معلوم ہیں،مگر یہ جزئی معلوم نہیں،اور ہم ہد ہد کا سیدنا سلیمان علیہ السلام کے ساتھ پیش آنے والا قصہ بتا چکے ہیں اور یہ آیت پڑھ چکے ہیںکہ مجھے وہ اطلاع ہے جو آپ کو نہیںاور کتب وتفسیر اس قسم کی مثالوں سے لبریز ہیں (المہند علی المفند صفحہ 58) 
تو دیوبندی مولوی خلیل احمد انبیٹھوی کی عبارت ومثال سے یہ بات واضح ہو گئی کہ مولانا عبدالسمیع صاحب علیہ الر حمہ یہ لکھتے ہیں تو وہ گستاخ نہیں ہو سکتے اسلئے کہ بھلے ہی شیطان ہر پاک وناپاک،وہر محفل میں موجود ہو اور حضور علیہ السلام وہاں نہ بھی ہوں تو یہ لازم نہیں آتا کہ آپﷺ کو اس جگہ یا مقام کا علم نہیں جیسے مولوی خلیل احمد انبیٹھوی کی عبارت سے پتہ چلا کہ اگر کوئی بچہ کسی جزئی پر مطلع ہو جائے تو اس کے ایک جزئی علم کی بناء پر کسی محقق مولوی کے بارے میں یہ نہیں کہا جائے گا کہ اسے فلاں جزئی کا علم نہیں جو کہ ایک بچہ کو حاصل ہے اور اسی طرح بھلے ہی قرآن کی آیت و تفسیر میں ہدہد کا قول موجود ہو کہ مجھے وہ اطلاع ہے جو آپ علیہ السلام کو نہیں : تو اس سے یہ نتیجہ نہیں اخذ کیا جائے گا کہ ہدہد کا علم اور دعویٰ تو نص سے ثابت ہے لیکن سلیمان علیہ السلام کیلئے اس علم کا ثابت کرنا شرک نہیں تو کونسا ایمان ہے ۔المہند کی عبارت میں جو مثال مولوی خلیل احمد نے پیش کی اس سے مولانا عبدالسمیع علیہ الرحمہ کی عبارت کا جواب تو سمجھ میں آجاتا ہے لیکن براہین قاطعہ کا جواب نہیں کہہ سکتے ۔
 اب دیوبندیوں کااصول کہ اللہ رب العزت نے جسے جو خصوصیت عطا فر مائی اس سے زیادہ ماننا شرک ہے :
       جیسا کہ عبارات اکابر اور دیوبندی مولوی ساجد خان نے براہین قاطعہ کے حوالے سے لکھا ۔
جواب : سب سے پہلے ہم یہ بتاتے چلیں کہ شیطان اور ملک الموت کو جو وسعت علم حاصل ہے اس سے زیادہ ہم شیطان اور ملک الموت کیلئے نہیں ثابت کرتے لیکن چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام مخلوق میں سب سے اعلیٰ ہیں اورآپ کی فضیلت و اختیارات سب سے زیادہ ہیں ۔تو ہم رسول خدا کے علم کو شیطان اور ملک الموت کے علم سے زیادہ مانتے ہیں ہاں یہ بات اور ہے کہ یہ آنحضرت ﷺکی مرضی ہے وہ جہاں چاہیں حاضر ہوں ۔اور اسی کا اقرار خود مصنف براہین قاطعہ نے علمائے حرمین کے سامنے کیا ملاحظہ ہو : ہم زبان سے قائل اور قلب سے معتقد اس امر کے ہیں کہ سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمامی مخلوقات سے زیادہ علوم عطاہوئے ہیں جن کو ذات وصفات اور تشریعات یعنی احکام عملیہ وحکم نظریہ اور حقیقت ہائے حقہ اور اسرار مخفیہ وغیرہ سے تعلق ہے کہ مخلوق میں سے کوئی بھی ان کے پاس تک نہیں پہنچ سکتا نہ مقرب فرشتہ اور نہ نبی رسول اور بیشک آپ کو اولین وآخرین کا علم عطا ہوا اور آپ پر حق تعالیٰ کا فضل عظیم ہے ،"( المہند علی المفند صفحہ 55 سوال اٹھارہواںکا جواب)
علمائے حرمین کے سامنے مولوی خلیل احمد انبیٹھوی کن دلائل قطعیہ کی بناء پر حضور علیہ السلام کا علم تمام مخلوق سے زیادہ مانا ہے جبکہ براہین قاطعہ میں تو بڑے تیور میں لکھ دیا کہ شیطان اور ملک الموت کو یہ وسعت نص سے ثابت ہے رسول اللہ کیلئے قیاس فاسدہ سے ایسا علم ثابت کرنا شرک نہیں تو کون سا ایمان ہے اب یہاں قیاس فاسدہ سے حضور علیہ السلام کا علم مانا یا نصوص قطعیہ سے اگر قیاس فاسدہ سے مانا تو مشرک ہوا جیسا کہ خود ہی براہین قاطعہ میں لکھا ہے اور اگر دلائل قطعیہ سے مانا ہے تو براہین قاطعہ میں اسے قیاس فاسدہ کیوں لکھا؟
      براہین قاطعہ میں جو وسعت علم محیط شیطان اور ملک الموت کیلئے مانی ہے اس کے بارے میں خلیل احمد انبیٹھوی علمائے حرمین کی بارگاہ میں کیا جوا ب دیتا ہےملاحظہ فر مائیں :ہاں کسی جزئی حادثہ حقیر کا حضرت کو اس لیے معلوم نہ ہو نا کہ آپ نے اس کی جانب توجہ نہیں فر مائی آپ کے اعلم ہونے میں کسی قسم کا نقصان نہیں پیدا کر سکتا جبکہ ثابت ہوچکا کہ آپ ان شریف علوم میں جو آپ کے منصب اعلیٰ کے مناسب ہیں ساری مخلوق سے بڑھے ہوئے ہیں ۔جیسا کہ شیطان کو بہتیر سے حقیر حادثوں کی شدت التفات کے سبب اطلاع مل جانے سے اس مردود میں کوئی شرافت اور علمی کمال حاصل نہیں ہوسکتا کیونکہ ان پر فضل وکمال کا مدار نہیں ہے اس سے معلوم ہوا کہ یوں کہنا کہ شیطان کا علم سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم سے زیادہ ہے ہر گز صحیح نہیں جیسا کہ کسی ایسے بچے کو جسے کسی جزئی کی اطلاع ہو گئی ہو یوں کہنا صحیح نہیں کہ فلاں بچہ کا علم اس متبحر ومحقق مولوی سے زیادہ ہے جس کو جملہ علوم وفنون معلوم ہیںمگر جزئی معلوم نہیں"
                                                     ( المہند صفحہ58) 
     محترم دوستوں آپ نے پڑھا کہ مولوی خلیل احمد انبیٹھوی نے کس طرح یو ٹرن لیا یہ کیا تھا ایک طرف تو براہین قاطعہ میں لکھتا ہے کہ شیطان اور ملک الموت کو یہ وسعت نص سے ثابت ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے وسعت علم محض قیاس فاسدہ سے ہی ثابت ہے اور یہاں اسی علم کو جو شیطان کیلئے نص سے ثابت ہے اس طرح بیان کیا جیسے کوئی حقیر حادثہ،یا ایک بچہ کا علم ایک ایسے مولوی کے سامنے جسے علوم وفنون میں مہارت حاصل ہے ۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا علم ماننا شیطان کے برابر شرک ہوا تو بتائیں شیطان سے زیادہ ثابت کر نا بقول تمہارے قیاس فاسدہ سے کیوں شرک نہ ہوا ؟اور براہین قاطعہ کی اس عبارت پر مولوی سرفراز خان دیوبندی بڑے چوڑے سینہ کے ساتھ لکھتا ہے "قارئین کرام! البراہین القاطعہ کی اس عبارت کو جو مکمل نقل کر دی گئی ہے بارہا پڑھیں اور انصاف سے فر مائیں کہ اس عبارت میں حضرت مولانا خلیل احمد صاحب سہارنپوری نے کونسی بات قرآن وحدیث اور اجماع امت کے خلاف کہی ہے؟"( عبارات اکابرص:160) 
     یہ دیکھئے ہندوستان میں ہٹ دھر می دکھا کر سوال کرتے ہیں کہ :براہین قاطعہ کی عبارت میں خلیل احمد سہارنپوری نے کہاں قرآن وحدیث اور اجماع امت کے خلاف کوئی بات کہی؟اور جب علمائے حرمین کو جواب دینے کی بات آئی تو وہاں ایسا جواب نہیں دیا گیا کہ دیکھو ہماری کتابیں اور ہماری اس عبارت کو کہ ہم نے جو لکھا قرآن وحدیث کے موافق لکھا ،بلکہ اپنی عبارت سے یو ٹرن لے لیا اور اس عبارت کا انکار ہی کر دیا کہ ہماری کسی کتاب میں ایسا نہیں لکھا ۔جب کہ مولوی سرفرازخان اور ساجد دیوبندی نے جو لکھا کہ مولوی عبدالسمیع رامپوری صاحب نے حضور علیہ السلام کے علم اور حاضر وناظر کوقیاس فاسدہ سے ثابت کیا اور براہین قاطعہ کے مصنف نے شیطان اور ملک الموت کے وسعت علم کو نص سے ثابت کیا ہے ،تو چاہئے یہ تھا کہ علمائے حرمین کے سامنے یہ ہی جواب دیتے کہ ہم نے جو بھی لکھا نصوص قطعیہ کے حوالے سے لکھا اور شیطان وملک الموت کو یہ وسعت علم نص سے ثابت ہے حضور ﷺ کیلئے کوئی نص ثابت نہیں تو ہم کیسے مان لیں ؟یہ تو شرک ہے اور ہم یہ شرک نہیں کر سکتے ۔وہاں تو پہلے انکار کر دیا کہ ہماری کسی تصنیف میں ایسی عبارت نہیں اور پھر جیسا کہ مولانا عبدالسمیع صاحب نے حضور علیہ السلام کے بارے میں لکھا اسی طرز میں بول پڑے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا علم شیطان سے زیادہ ہے شیطان کا علم اگر کسی حاثہ حقیر کی وجہ سے حاصل ہو بھی گیا ہے تو اس میں حضور علیہ السلام کے اعلم ہونے میں کوئی نقصان نہیں پیدا ہو سکتا اسلئے کہ یہ علم حضور علیہ السلام کو حاصل ہے لیکن آپ نے اس پر توجہ نہ فر مائی ۔اور لکھا کہ شیطان کا علم حضور علیہ السلام کے سامنے ایسا ہی ہے جیسے کسی بچہ کا جزئی علم کسی ایسے عالم محقق کے مقابلہ جسے علوم وفنون میں مہارت ہو ۔تو یہ نہیں کہا جائے گا کہ فلاں عالم علوم فنون کا حامل ہے لیکن یہ جزئی علم اسے معلوم نہیں ۔
     لیکن براہین قاطعہ میں یہ بات واضح طور پر لکھی گئی کہ شیطان اور ملک الموت کی وسعت علم نص سے ثابت ہے اور حضور علیہ السلام کیلئے یہ علم ثابت کرنا بلا کسی نص کے شرک نہیں تو کونسا ایمان کا حصہ ہے ۔ مطلب یہاں تو کہہ دیا لیکن علمائے حرمین کے سوال کے جواب میں یہ نہیں لکھا بلکہ وہاں بھی اسی انداز میں حضور علیہ السلام کے وسعت علم کو شیطان سے زیادہ بیان کر دیا جسے یہ قیاس فاسدہ قرار دے چکے تھے اور اسی کو شرک بھی بتا رہے تھے ۔
                          عقائد قطعی اور ظنی 
 علامہ پر ھاروی نبراس میں شرح عقائد میں بیان کردہ مسئلہ کی وضاحت کرتے ہو ئے فر ماتے ہیں '"کہ مسائل اعتقادیہ کی دوقسمیں ہیں ایک وہ جس میں یقین مطلوب ہو جیسے واجب تعالیٰ کی وحدت اور نبی ﷺ کا مصداق اور دوسری وہ جس میں ظن پر اکتفا کر لیا جائے جیسے تفصیل رسل کا مسئلہ ( نبراس صفحہ598)اسی مضمون کی عبارت شرح مواقف میں بھی موجود ہے شرح عقائد اور نبزاس کی عبارات سے ثابت ہوا کہ عقائد ظنیہ میں ظنی دلائل پیش کیے جاسکتے ہیں۔
               کیا حضور علیہ السلام کو اپنی نجات کی بھی خبر نہیں؟
    مولوی خلیل احمد انبیٹھوی نے براہین قاطعہ میں علم غیب کی نفی میں دو حدیثیں پیش کیں ہیں اور ایک بحر الرئق کی عبارت پیش کی ہے ۔
      پہلی حدیث کا مضمون یہ ہے کہ حضورﷺ نے فر مایا کہ بخدامیں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا کیاجائے گا اور تمہارے ساتھ کیاکیا جائیگا ۔یہ حدیث بخاری شریف میں موجود ہے مولوی اسماعیل نے تقویۃ الایمان میں کہا یعنی جو کچھ اللہ اپنے بندوں سے معاملہ کرے گا خواہ دنیا میں خواہ قبر میں خواہ آخرت میں سواس کی حقیقت کسی کو معلوم نہیں نہ نبی کو نہ ولی نہ اپنا حال نہ دوسرے کا ( تقویۃ الایمان صفحہ18) 
        مولوی خلیل نے جو حدیث پیش کی ہے مولوی اسماعیل نے وہی حدیث نقل کرکے اس کا ترجمہ اور مطلب بیان کیا ہے ۔خلیل احمد اور اسماعیل کا ان احادیث سے استدلال کرنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ان کے نزدیک حضور علیہ السلام کو اپنی نجات کا علم نہیں کیونکہ تقویۃ الایمان کے تمام مسائل ان کے نزدیک صحیح ہیں اور تمام پر عمل کرنا واجب ہے اور اس کا رکھنا پڑھنا عمل کرنا عین اسلام ہے جیسا کہ گنگوہی صاحب کے فتاوی سے ثابت ہوا ہے۔
  حاصل مطالعہ   (1) براہین قاطعہ کی عبارت کے مطابق حضور علیہ السلام کیلئے وسعت علم ثابت کرنے کیلئے کوئی نصوص نہیں اس لئے قیاس فاسدہ سے اس کو ثابت کرنا شرک ہے ایمان نہیں ۔
(2) شیطان اور ملک الموت کو یہ وسعت نص سے ثابت ہے اس لئے شیطان کی وسعت علم ماننا شرک نہیں لیکن حضور علیہ السلام کیلئے ثابت کرنا شرک ہے ۔
(3)اولاً۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے ہر جگہ حاضر وناظر ثابت کرنا عقیدہ کے باب سے متعلق ہے اور عقیدہ قیاس سے ثابت نہیں ہو سکتا اور نہ خبر واحد سےثابت ہو تا ہے (عبارت براہین قاطعہ نقل عبارات اکابر صفحہ157) جبکہ مولانا عبد السمیع نے اس کو قیاس سے ثابت نہیں کیا بلکہ دلالۃ النص سے ثابت کیا ہے ان کا مطلب یہ ہے کہ شیطان اور ملک الموت کو جب ادنیٰ درجہ کی لطافت حاصل ہے تو ان کو روئے زمین کا علم حاصل ہےتو حضورﷺ کو اعلیٰ درجہ کی لطافت حاصل ہے تو آپ کوبطریق اولیٰ یہ علم حاصل ہو گا ابھی تک ان کو قیاس اور دلالۃ النص کے درمیان فرق کا بھی پتہ نہیں۔
(4) عقائد دو قسم کے ہوتے ہیں قطعی اور ظنی ۔
(5)فتاویٰ رشیدیہ میں ہے کہ اسمعیل قطعی جنتی ہے تو اسکے قطعی جنتی ہونے پر کون سی آیت یا خبر متواتر ہے ،نیز تھانوی نے بسط البنان میں لکھا حضور علیہ السلام کی شان تمام کمالات عملیہ اور علمیہ میں یہ ہے کہ "بعد از خدا بزرگ تو ئی قصہ مختصر" تو تھانوی کے پاس جو قطعی دلیل ہے وہ خلیل احمد کو سنا دو نیز المہند میںعلمائے دیوبند نے لکھا ہے کہ ہمارے نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے روضہ اقدس کی شان عرش سے زیادہ ہے اور انھوں نے اس بات کو اپنا عقیدہ قرار دیا تو کیا اس عقیدہ پر تمہارے پاس کوئی دلیل ہے ۔
(6) علمائے حرمین کے سوال کے جواب میں مولوی خلیل احمد نے براہین قاطعہ کی عبارت کا ہی انکار کر دیا۔
(7) شیطان اور ملک الموت کیلئے وسعت علم نص سے ثابت ہے اور بقول خلیل احمد حضور علیہ السلام کیلئے کوئی نص ثابت نہیں اس کے باوجود اس نے شیطان اور یہاں تک تمام مخلوق سے زیادہ وسعت علم حضور علیہ السلام کیلئے مانا مطلب براہین قاطعہ کی عبارت کی رو سے خود ہی مشرک ہو گیا ۔
(8) المہند علی المفند میں براہین قاطعہ کی عبارت کا جواب نہیں دیا گیا بلکہ اس کا رد کیاگیا ۔خود اسی مصنف کے ہاتھوں جس نے براہین قاطعہ لکھی۔( یہ حسام الحرمین کی مار کا اثر نہیں تو پھر اور کیا ہے؟)
(9) صفات حق تعالیٰ کی بندہ میں نہیں ہو تی اور جو کچھ اپنی صفات کا ظل کسی کو عطا فر ماتے ہیں اس سے زیادہ ہر گز کسی میں ہو نا ممکن نہیں ( براہین قاطعہ نقل عبارات اکابر صفحہ 157) اسکے باوجود شیطان اور ملک الموت سے زیادہ حضور علیہ السلام کا علم المہند میں مانا گیا یہ کیسے ممکن ہوا جبکہ اسی کو ماننا شرک قرار دیا گیا ۔
(10) المہند میں پیش کر دہ عقیدہ اگر قیاس فاسدہ سے ثابت ہے تو بے شک خلیل احمد انبیٹھوی مشرک ٹھہرا۔
                            ذرا تاریخ کا مطالعہ کریں 
کچھ دیوبندی مناظرین عوام کو گمراہ کرنے کیلئے یہ کہتے ہیں کہ اعلیٰ حضرت امام اہل سنت نے حسام الحرمین میں جن اکابرین دیوبندکی عبارتوں کو پیش کیا وہ اردو میں تھیں اور اعلیٰ حضرت نےان کو عربی میں اپنے معنی ومفہوم کا جامہ پہنا کر انہیں کفریہ بنا کر پیش کیا اور علمائے حرمین کی آنکھوں میں دھول جھونکی ۔
      یہ دیوبندی مناظرین کی مکاریاں ہیں اعلیٰ حضرت امام اہل سنت نے ان عبارتوں کو انہیں انداز میں بیان کیا جس انداز میں وہ اپنی اصل حالت میں تھیں ۔اور اگربقول تمہارے حسام الحرمین میں ان عبارتوں کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا تھا تو ظاہر سی بات ہے وہ اپنی کتاب میں تو کفریہ نہ ہوتیں لیکن ایسا نہیں وہ اپنی کتابوںمیں بھی کفریہ ہی تھیں یہی وجہ ہے کہ ان دیوبندی اکابرین کی یہ کتابیں شائع ہوتے ہیں امت میں فساد کا سبب بنیں ۔اب ذرا مولوی خلیل احمد صاحب کی کتاب براہین قاطعہ کو ہی لے لیجئے ۔
کتاب شائع ہوئی اور جب اس کتاب کو مولانا غلام رسول دستگیر قصوری جو کہ مولوی خلیل احمد کے دوست تھے اس پر ناراضگی کا اظہار کیا اور بہاولپور پہنچے جہاں مولوی خلیل احمد انبیٹھوی مدرس تھا ۔وہاں پہنچ کا آپ علیہ الرحمہ نے اسے سمجھایا اور اسکی کفریہ عبارت پر اس کو توبہ کی تلقین کی لیکن جب مولوی خلیل احمد کو اس معاملہ میں ذرا برابر بھی پشیماں نہ پایا تو اسے مناظری کا چیلنج کر دیا جو کہ نواب بہالپور کی نگرانی میں سن 1306ھ میں رونما ہوا اور اس مناظرہ میں مولوی خلیل احمد انبیٹھوی کی ذلت آمیز شکست ہوئی ۔پتہ چلا کہ جب مناظرہوا تب تو حسام الحرمین شائع بھی نہیں ہو ئی تھی تو کیوں مناظرہ ہوا حسام الحرمین1326 میں شائع ہوئی اس سے20 سال قبل براہین قاطعہ کی عبارت کیسے کفریہ و گستاخانہ ہوگئیں ۔تو اس کا جواب ہے یہ عبارت پہلے ہی سے کفریہ تھی حسام الحرمین اور اعلیٰ حضرت پر الزام لگانا فقط ان دیوبندیوں کی منافقت ہے ۔
                            

Comments

Popular posts from this blog

Hassamul Harmain Ka Pas Manzer

اہلسنت پر اعتراضات کے جوابات

22 Rajjab Ke Kunde Aur Munafikeen