یہ د رد کس کے لئے ہے؟
یہ درد کس کے لئے ہے؟
پچھلے ڈیڑھ برس سے غزہ میں اسرائیلی ظلم وستم نے حد یں پار کررکھی ہیں ایسے وقت میں دنیا کے کونے کونے سےمسلمانوں نے اسرائیلی ظلم وستم کے خلاف آوازیں بلند کیں ۔سوائے منافقین کے جو خود کو مسلمان بتاتے ہیں لیکن ہر لمحہ انکے دلوں میں اسرائیل اور یہودیوں کیلئے ہمدردی کا بلبلہ پھوٹتا نظر آتا ہے یوں تووہابیت زدہ عرب ممالک کے حکمرانوں کا حال کسی سے چھپا نہیں جہاں ایک طرف یمن اپنے سمندری راستے اسرائیل لے جانے والےامریکی ہتھیاروں سے لیس جہازوں کیلئے بند کر دیئے ہیں وہیں سعودی یہودیوں نے انکے لئے الگ سے راستے مہیا کئے ہیں تاکہ فلسطینیوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑنے والے ان یہودیوں کو کوئی تکلیف نہ ہو ۔اسطرح ان وہابی یہودیوں نے کھلے عام اپنے یہودی آقاؤ ں کا ہی ساتھ دیا ۔ایسے حالات میں مسلمانوں کیلئے صرف ایک راستہ دعا ہی کا بچتا ہے جو کہ دنیا کے کونے کونے سے مسلمان اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں کیلئے کررہے ہیں۔ یہ دعاؤ کا اثر ہی ہے کہ جو اسرائیل اپنی طاقت کے گھمنڈ میں یہ دعویٰ کر بیٹھا تھا کہ ہم سات دنوں میںغزہ سے مزاحمت کا صفایہ کر دینگے آج ڈیڑ برس بیت جانے کے بعد بھی وہاں پر پھنسا ہوا ہے ۔
دعاؤں کا سلسلہ دنیا کے کونے کونے میں شروع ہے ایسے ہی حالات کو دیکھتے ہو ئے شوشل میڈیاپر سورۃ فیل ( الم ترا کیف) کے ورد کی ایک پوسٹ تیزی سے گھومنے لگی ۔اور لوگوں نے اسے شئر کرنا شروع بھی کرد یا لیکن چونکہ یہودیوں کے ایجنٹ منافقین کی شکل میں ہمیشہ مسلمانوں کے در میان موجود رہتے ہیں انہیں کب یہ راس آتا آخر کا رمنافقت کا بلبلہ پھوٹ پڑا اور مالیگاؤ ںکے ایک کاپی پیسٹ مفتی نے فتویٰ دے ڈالا جس کے مطابق اس ورد کی کوئی حقیقت نہیں لہٰذا اس کے فراق میں نہ پڑا جائے ۔اس سے سوال کیا گیا کہ سورہ فیل کے ورد کے بارے میں جو کہ شوشل میڈیا پر عام ہے پو چھا گیا اس عمل کی شرعی حیثیت کیا ہے؟تو جواب دیا ”کوئی حقیقت نہیں یہ سوشل میڈیا مفکرین کی دماغی اپج ہے اگر فلسطینی مسلمانوں کیلئے کچھ کرنا ہی ہے تو دعا کریں اور جہاں تک ہو سکے اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں۔“(مفتی عامر عثمانی مالیگانوی) یہ ہے یہودیوں سے انکی اصل محبت ۔
سورہ فیل ہمیں اس وقعہ کی یاد دلاتا ہے جب کہ ابرہہ بادشاہ نے قسم کھائی کہ وہ خانہ کعبہ کو مسمار کر دے گااور اس نے اپنی پوری فوج اور ہاتھیوںکا لشکر لیکر مکہ پر چڑھائی کی اللہ عزوجل نے ابابیل کا لشکر بھیجا جس نے ابرہہ کے لشکر کو تباہ کر کے رکھ دیا ۔سور فیل قرآن کی ایک سورۃ ہے مطلب اس کا ورد یعنی قرآن کی تلاوت کرنا اور تلاوت قرآن کے بعد فلسطینیوں کیلئے دعا خیر کرنا اس میں کسی کو کیا تکلیف ہو سکتی ہے اب اگر عامر عثمانی مالیگانوی یہ کہے کہ اس کا تعلق کسی حدیث سے نہیں یا شریعت میں اس کی اصل نہیں تو اس پر ہم انکے اکابر کا ایک فتویٰ پیش کئے دیتے ہیںآپ کے مولوی رشید احمد گنگوہی سے کسی نے سوال کیا ”کسی مصیبت کے وقت بخاری شریف کا ختم کرانا قرون ثلاثہ سے ثابت ہے یا نہیں اور بدعت ہے یا نہیں؟“(جواب) گنگوہی صاحب لکھتے ہیں ”قرون ثلٰثہ میں بخاری تالیف نہیں تھی مگر اس کا ختم درست ہے کہ ذکر خیر کے بعد دعا قبول ہوتی ہے اس کا اصل شرع سے ثابت ہے بدعت نہیں“( فتاویٰ رشیدیہ ص: 173 کتاب العلم) اب یہاں آپ کے اکابر مولوی نے صر ف اس لئے اسکو بدعت نہیں مانا کہ یہ ذکر خیر ہے تو بتائیے قرآن کی تلاوت کیاذکر خیر نہیں ؟کیا اس سورہ میں پیش آنے والا واقعہ مسلمانوں کیلئے ایک امید نہیںجو مسلمان آج دعا کرتے کرتے کبھی کبھی یہ خیال بھی لے آتے ہیں کہ اللہ عزوجل کی امداد کیوں نہیں آتی ان مسلمانوں کیلئے تسلی نہیں کہ ابا بیل کا لشکر بھیجنے والا وہی رب کائینات ہےکہ جس نے اپنے گھر کی حفاظت فرمائی۔ اور انشا ء اللہ وہ اپنی شان کے مطابق غزہ کے مسلمانوں کی بھی ضرور بہ ضرور امداد فر مائے گا ۔لیکن اب چونکہ یہودیوں کو بھی اس بات کا احساس ہو چلا ہے کہ اللہ عزوجل کی امداد مظلوم فلسطینیوں کو پہنچنے لگی ہے یہی وجہ ہے کہ ایک غریب بے سہارا مسلم قوم جس کے کیلئے کوئی مسلم ملک کھڑا نہیں ہوتا اور دوسری طرف اسرائیل کے جس کی طاقت کے سامنے دوسرے ممالک خاموش ہوجاتے ہیں بڑے بڑے ہتھیاروں کی نمائش کرنے والے مسلم ممالک کی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ اسرائیل کے سامنے اپنی فوج اتار دیں اس اسرائیل کے ہتھیار کم پڑنے لگے دنیا کی سوپر پاور طاقتیں اپنا پیسہ دے دے کر کنگالی کے دہانے پر آکھڑی ہو ئی اس وقت بھی اسرائیل جو خود کو بہت طاقتور سمجھتا ہے اپنےساتھ امریکہ ،فرانس،برٹین،جرمنی جیسے بیسیوں ممالک کی مدد حاصل کرنے کے باوجود غزہ میں جیت کا جھنڈا لہرانے میں ناکام رہا تو ۔اسے ہم اللہ عزوجل کی امداد غزہ والوں کیلئے نہیں کہے گے تو اور کیا کہے گے اور شاید اسی پر اب یہودیوں کے ایجنٹ پاگل ہورہے ہیں ظاہر سی بات ہے سعودی یہودیوں کا چندہ کھا نےکے بعد ایسے ہی فتاویٰ دئیے جائیں گے ۔
( سعد حنفی )
Comments