22 Rajjab Ke Kunde Aur Munafikeen

                  بزرگان دین کے نام ایصال ثواب اور منافقین        

 رجب المرجب : اچانک واٹس اپ پر ایک فتویٰ پر نظر پڑی پڑھنے کے بعد اس بات کا اندازہ باآسانی لگ گیا کہ یہ کسی منافق کی منافقت ہے ۔جس کا تعلق یہودیوں سے ہے وہی فتنہ جو انگریزوں کے دور حکومت میں ہندوستان کی سرزمین میں پیدا ہوا اور چند سکوں میں اپنے ایمان کا سودہ کر بیٹھا حالانکہ عہد رسالت سے ہی ان منافقین کو ذات رسول پاک ﷺ اور آپ کے اصحاب سے بغض وحسد تھا اور آج بھی ان منافقین کی اولادیں اپنے آباواجداد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے امت میں نئے نئے فتنوں کو جنم دیتےرہے ہیں ۔انکی پوری کوشش ہوتی ہے کہ مسلمان حضور علیہ السلام کا تذکرہ بند کر دیں انکے اصحاب اور انکی اولاد کا نام نہ لیں لیکن جن کے ذکر کو خود اللہ رب العزت نے اونچا کیا جن کا چرچا خود رب کائنات کرے انکا اور انکی اولاد واصحاب کا ذکر بھلا کیونکر بند ہو سکتا ہے ۔

کونڈہ کیا ہے اور اسکی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ 

اس پر کسی جاہل نام نہاد مفتی نے ایک واقعہ لکڑہارے کا لکھا اور اس کو بے بنیاد بتایا جبکہ اس سے سوال کیا گیا تھا کونڈے کی شرعی حیثیت اس وقعہ کی داستان کے بارے میں نہیں پوچھا گیا کہ یہ صحیح ہے یا غلط ہے اسکی شرعی حیثیت بتاتے ہو ئے خود ہی منگھڑت واقعہ نقل کر دیا :کہ حقیقت یہ ہے کہ کونڈوں کی مروجہ رسم، دشمنانِ صحابہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات پر اظہار مسرت کے لیے ایجاد کی ہے، بائیس رجب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی تاریخ وفات ہے۔ بائیس رجب کا حضرت جعفر صادق رحمہ اللہ سے کوئی تعلق نہیں، اس تاریخ کو نہ ان کی ولادت ہوئی ہے اور نہ وفات، حضرت جعفر صادق رحمہ اللہ کی ولادت ۸/ رمضان ۸۰ ہجری یا ۸۳ ہجری کی ہے اور وفات شوال ۱۴۸ ہجری میں ہوئی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس رسم کو محض پردہ پوشی کے لیے حضرت جعفر صادق رحمہ اللہ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے ورنہ درحقیقت یہ تقریب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کی خوشی میں منائی جاتی ہے"پھر اس پر مزید لکھا کہ "جس وقت یہ رسم ایجاد ہوئی اہل سنت والجماعت کا غلبہ تھا اس لیے یہ اہتمام کیا گیا کہ شیرینی علانیہ تقسیم نہ کی جائے تاکہ راز فاش نہ ہو بلکہ دشمنان حضرت معاویہ رضی اللہ خاموشی کے ساتھ ایک دوسرے کے یہاں جاکر اسی جگہ یہ شیرینی کھالیں جہاں اس کو رکھا گیا ہے اور اس طرح اپنی خوشی ومسرت ایک دوسرے پر ظاہر کریں، جب اس کا چرچا ہوا تو اس کو حضرت جعفر صادق رحمہ اللہ کی طرف منسوب کرکے یہ تہمت ان پر لگائی کہ انہوں نے خود اس تاریخ کو اپنی فاتحہ کا حکم دیا ہے حالانکہ یہ سب من گھڑت ہے، مسلمانوں پر لازم ہے کہ ہرگز ایسی رسم نہ کریں، بلکہ دوسروں کو بھی اس کی حقیقت سے آگاہ کرکے اس سے بچانے کی کوشش کریں۔ (احسن الفتاوی : ۱/ ۲۶۷)

ایک طرف ایک من گھڑت واقعہ کا رد کیا جا رہا ہے دوسری طرف اپنے عقل نظریات باطلہ کو فروغ دینے کیلئے ایک من گھڑت واقعہ نقل کیا جارہا ہے پتہ چلا من گھڑت واقعہ بیان کر نا انکے نزدیک اسی وقت برا مانا جائے گا جب اہل بیت اطہار کی شان میں یا انکے ایصال ثواب کیلئے نیاز کی جائے گی لیکن جب انکے مقاصد کو پورا کرنے کی بات آئے اور جب انکی مرضی کے مطابق کوئی من گھڑت واقعہ بھی ملے گا تو دلیل بنے گا ۔جبکہ فتویٰ شرعی دلیل کی بناء پر دینا چاہئے تھا نہ کہ من گھڑت واقعات کی بنیاد پر ۔

اس کے آگے لکھتا ہے :

اگر بالفرض یہ مان لیا جائے کہ بائیس رجب کے کونڈے کے پیچھے بغضِ صحابہ کار فرما نہیں ہے تب بھی حضرت جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کے ایصالِ ثواب کے لیے مخصوص دن اور تاریخ متعین کرنا شرعاً درست نہیں ہے۔ اس لیے کہ مرحومین کے لیے ایصالِ ثواب کسی بھی وقت اور کہیں سے بھی کیا جاسکتا ہے، اس کے لیے کسی دن یا وقت کو مقرر کرنا نہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور نہ حضراتِ صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہٴ مجتہدین سے۔ یہ دین میں ایک نئی چیز ہے جسے بعد کے لوگوں نے ایجاد کیا ہے۔ لہٰذا بائیس رجب کو کونڈے کی دعوت میں شریک ہونا یا اس کے نام پر آنے والے کھانے کو قبول کرنا بدعت کی حوصلہ افزائی کہلائے گی جس سے بچنا ضروری ہے۔"

اس کا جواب علمائے اہل سنت نے بہت مرتبہ دیا ہے لیکن منافقین اپنی منافقت سے باز نہیں آتے ،بہر کیف ہم عوام اہل سنت سے گزارش کرتے ہیں کہ استفتاء مفتیان کرام کو دیا کریں جاہلوں سے فتویٰ لینااپنے ایمان کو برباد کر نا ہے ۔

جواب : منافقین کو جب ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( بارہویں) ،ایصال ثواب( کونڈہ،گیارہویں،وغیرہ) میں کوئی شرعی گرفت نہیں ملتی ہے تو فوراً ایک جملہ انکے زبان پر آجاتا ہے وہ ہے تعین یوم اور اہتمام تداعی،حالانکہ تعین یوم کے بارے میں حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کا قول موجود ہے،فر ماتے ہیں "اگر کوئی شخص عبادت کو مقصود نہیں سمجھتا بلکہ فی نفسہٖ مباح جانتا ہے مگر ان کے اسباب کو عبادت جانتا ہے اور ہئیت مسبب کو مصلحت سمجھتا ہے تو بدعت نہیں ،مثلاً قیام کو لذتہا عبادت نہیں اعتقادکرتا مگر تعظیم ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عبادت جانتا ہے اور کسی مصلحت سے اس کی یہ ہئیت معین کر لی اور مثلاً تعظیم ذکر کو ہر وقت مستحسن سمجھتا ہے مگر کسی مصلحت سے خاص ذکر ولادت کا وقت مقرر کر لیا مثلاً ذکر ولادت کو ہر وقت مستحسن سمجھتا ہے مگر بہ مصلحت سہولت دوام یا اور کسی مصلحت سے بارہ12 ربیع الاول مقرر کر لی اور کلام تفصیل مصالح میں از بس طویل ہے ہر محل میں جدا مصلحت ہےرسائل موالید میں بعض مصالح مذکور بھی ہیں اگر تفصیلاً کوئی مطلع نہ ہوتو مصلحت اندیشاں اشغال کا اقتدا ہے اس کے نزدیک یہ مصلحت کافی ہے ،ایسی حالت میں تخصیص مذموم نہیں تخصیصات اشغال ومراقبات وتعینات رسوم ومدارس وخانقاہ جات اسی قبیل سے ہیں" 

( کلیات امدادیہ فیصلہ ہفت مسئلہ صفحہ 78)

     یہاں پر حاجی امداد اللہ مہاجر مکی علیہ الر حمہ نے سنیوں کی جانب سے وکالت کرتے ہو ئے ان یہودیوں کے بنائے جدید فتنہ کا رد فر ما دیا جو ہر وقت تذکرہ رسول،گیارہویں ،باہویں،جیسی ایصال ثواب کا محافلوں کو اپنے بے معنی اصولوں کی بناء پر ناجائز وحرام قرار دیتاہے ،

حاجی امداد اللہ مہاجر مکی علیہ الر حمہ نے مزید فر مایا کہ" تخصیصات اشغال ومراقبات وتعینات رسوم ومدارس وخانقاہ جات اسی قبیل سے ہیں"پتہ چلا کہ اگر منافقین کی مانیں تو تعینات رسوم مدارس وخانقاہ جات سب دین میں اضافہ اور بدعت ہے ان سبھی میں شامل ہو نا بدعت کو فروغ دینا اور انکے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے جبکہ آج مسلمانوں کو پھانسنے کیلئے انکے یہاں بھی پیری مریدی اور یہ سب رسومات بڑے پیمانے میں ادا کی جاتی ہیں وہاں انہیں بدعت نہیں دین نظر آتا ہے اس لئے کہ اس میں انکا مقصد مسلمانوں کو مرتد بنانا ہو تا ہے اور جو کا عوام اہل سنت کرتی ہےجس میں عشق رسول کا اظہار ،محبت اہل بیت کا اظہار ہو تا ہے جو انکے لئے جلن وحسدکا باعث بنتی ہے ۔اور منافقین یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں جو دل محبت رسول ﷺ اور محبت اہل بیت سے معمور ہو گا وہاں ایمان کو چوری کر لینا آسان نہیں ہو گا اسی وجہ سے مسلمانوں میں بدعت کا نام لیکر مسلمانوں کو گمراہ کرتے ہیں ۔

اس فتویٰ میں شامی کی ایک عربی عبارت بھی نقل کی گئی ہے لیکن اس کا ترجمہ نہیں پیش کیاگیا۔ شاید فتویٰ پوچھنے والا عربی کا ماہر تھا اسی وجہ سے اسکو ترجمہ کی انہیں ضرورت نہیں پیش آئی ہو گی ،یا پھر بھولی بھالی عوام میں اپنے بے معنی علم کا مظاہرہ کرنا مقصود ہوگا ۔بہر کیف ہم اس کا ترجمہ ومفہوم بیان کر دیتے ہیں یہاں بھی یہ برے پھنس رہے ہیں :عربی عبارت

وَيُكْرَهُ اتِّخَاذُ الضِّيَافَةِ مِنْ الطَّعَامِ مِنْ أَهْلِ الْمَيِّتِ لِأَنَّهُ شُرِعَ فِي السُّرُورِ لَا فِي الشُّرُورِ، وَهِيَ بِدْعَةٌ مُسْتَقْبَحَةٌ: وَرَوَى الْإِمَامُ أَحْمَدُ وَابْنُ مَاجَهْ بِإِسْنَادٍ صَحِيحٍ عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ " كُنَّا نَعُدُّ الِاجْتِمَاعَ إلَى أَهْلِ الْمَيِّتِ وَصُنْعَهُمْ الطَّعَامَ مِنْ النِّيَاحَةِ ". اهـ.

      وَفِي الْبَزَّازِيَّةِ: وَيُكْرَهُ اتِّخَاذُ الطَّعَامِ فِي الْيَوْمِ الْأَوَّلِ وَالثَّالِثِ وَبَعْدَ الْأُسْبُوعِ وَنَقْلُ الطَّعَامِ إلَى الْقَبْرِ فِي الْمَوَاسِمِ، وَاِتِّخَاذُ الدَّعْوَةِ لِقِرَاءَةِ الْقُرْآنِ وَجَمْعُ الصُّلَحَاءِ وَالْقُرَّاءِ لِلْخَتْمِ أَوْ لِقِرَاءَةِ سُورَةِ الْأَنْعَامِ أَوْ الْإِخْلَاصِ. وَالْحَاصِلُ أَنَّ اتِّخَاذَ الطَّعَامِ عِنْدَ قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ لِأَجْلِ الْأَكْلِ يُكْرَهُ. وَفِيهَا مِنْ كِتَابِ الِاسْتِحْسَانِ: وَإِنْ اتَّخَذَ طَعَامًا لِلْفُقَرَاءِ كَانَ حَسَنًا اهـ وَأَطَالَ فِي ذَلِكَ فِي الْمِعْرَاجِ. وَقَالَ: وَهَذِهِ الْأَفْعَالُ كُلُّهَا لِلسُّمْعَةِ وَالرِّيَاءِ فَيُحْتَرَزُ عَنْهَا لِأَنَّهُمْ لَا يُرِيدُونَ بِهَا وَجْهَ اللَّهِ تَعَالَى۔ (شامی : ٢/٢٤١)

تر جمہ :اہل میت کی جانب سے ضیافت کا کھانا تیار کرنا مکروہ ہے ۔کیونکہ یہ کھانا خوشی میں مشروع ہے مصیبت میں مشروع نہیں۔یہ قبیح بدعت ہے ،امام احمد او ر ابن ماجہ نے صحیح سند سے جریر بن عبداللہ سے روایت کی ہے : ہم اہل میت کے ہاں اجتماع کرنے اور ان کا لوگوں کیلئے کھانا تیار کرنے کو نوحہ شمار کرتے ۔

      بزاریہ میں ہے:پہلے دن،تیسرے دن،ہفتہ کے بعد کھانا تیار کر نا مکروہ ہے ،اور مخصوص مواقع پر کھانا قبر کی طرف لے جانا مکروہ ہے اور قرآن کی قراءت کیلئے دعوت کرنا مکروہ ہے ۔ختم کیلئے اور سورۃ انعام یا سورۃ اخلاص کی قراءت کیلئے صلحا اور قرا کا جمع ہونا مکروہ ہے ۔

      حاصل کلام یہ ہے کہ کھانا کھانے کیلئے قرآن کی قراءت کے موقع پر کھانا تیار کرنا مکروہ ہے:بزاریہ میں کتاب الاستحسان میں ہے ،اگر اس نے فقرا کیلئے کھانا تیار کیا تو یہ اچھا ہے ۔( ترجمہ ،عربی عبارت شامی ) 

     اس عبارت سے اس بات کی کوئی دلیل قائم نہیں کی جاسکتی کہ ایصال ثواب اور صدقہ کیلئے تعین یوم کا اہتمام باطل ہے جبکہ دیوبندی اکابرین کے پیر ومرشد حاجی امداد اللہ صاحب بھی اس تعین کے قائل ہیں اور جہاں تک انھوں نے اس کے تعین کی وجوہات بیان کی ہیں وہی اہل سنت وجماعت کے نزدیک بھی مانی جاتی ہے ۔عربی عبارت کو پیش کرکے اپنے آپ کو بہت بڑا عالم بتانا سوائے ریا کاری کے کچھ نہیں اس لئے کہ اس عبارت کا دلیل بننا صدقہ اور ایصال ثواب کے معاملہ میں کہیں سے ثابت نہیں ہو تا اور یہ بات خود جناب کو بھی پتہ تھی شاید اسی وجہ سے تر جمہ نہیں لکھا صرف اپنی شخصیت کو ظاہر کرنے کیلئے عربی عبارت کو نقل کر دیا اور ہم نے اس کا تر جمہ کر کے انکی شخصیت کا پول بھی کھول کر رکھ دیا ۔

فتاویٰ شامی میں یہ عبارت "باب الصلاۃ الجنازہ"کے عنوان پر لکھی گئی اور اسکا مضمون اس عنوان کے تحت کہ میت کے" گھر والوں کی جانب سے ضیافت کا مکروہ ہونا"لکھا گیا لیکن جناب نے کچھ سوچا نہ سمجھا بس انہیں تو اس بات سے شکایت تھی کہ امام جعفر صادق کے نام فاتحہ ہو کیوں؟ہم منافقین کے ہوتے ہوئے عشاق اہل بیت ایسا کر کیسے سکتے ہیں اسی کو ذہن میں رکھتے ہو ئے جو ہفوات بکیں وہ انکے فتویٰ سے ظاہر ہے ۔

     رہا ایصال ثواب کا معاملہ تو یہ خود اقرار کر چکا ہے اور انکے گھر کے انکے اکابرین بھی کھانا کھلانے کو صدقہ کا نام دے چکے تو اب اس پر میت والی عبارت کو یہاں چسپا کرنا کونسی عقل مندی تھی؟

خود مولوی اشرف علی تھانوی اپنے رسالہ "ایصال ثواب اور اسکے احکام ومسائل" میں ایصال ثواب کا طریقہ بیان کرتے ہوئے لکھا کہ کھانا کھلانا بھی نیکی ہے اب اسے کسی کے نام ایصال ثواب کیا جاسکتا ہے۔

 اللہ رب العزت اہل سنت کو سلامت رکھے : جناب نے لکھا کہ اس تاریخ کو نہ ولادت امام جعفر صادق علیہ الرحمہ ہے اور نہ اس تاریخ کو آپ کی وفات ہاں اس تاریخ کو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات ہے اور شیعہ اس کی خوشی مناتے ہیں جبکہ یہ انکی جماعت کا اپنا نظر یہ ،اہل سنت وجماعت اپنی ہر فاتحہ میں نہ صرف ان بزرگان دین کو یاد کرتے ہیں جنکے کے نام یہ محفل منعقد ہے بلکہ سبھی انبیاء بالخصوص حضور علیہ السلام سےو اصحاب رسول واولیاء کرام سبھی کو ایصال ثواب پہنچاتے ہیں ۔اس میں حضرت امیر معاویہ بھی شامل ہیں 22 رجب کو ایصال ثواب حضرت امیر معاویہ کے نام بھی کیا جاتا ہے۔پتہ چلا کہ 22 رجب کو حضرت امیر معایہ کےنام بھی ایصال ثواب کیا جاتا ہے نہ کہ انکی وفات کی خوشی منائی جاتی ہے، دوسری بات کہ اس دن انکی ولادت ہے نہ وفات کی تاریخ تو ہم نے اپنی اس محفل سے یہ بھی واضح کر دیا کہ انکے نام کی تاریخ کا تعین کسی خاص اعتقاد کے تحت نہیں بلکہ مصلحت وسہلوت عوام کی خاطر کیا ہے جیسے نماز "صلوٰۃ والتسبیح "کسی بھی دن پڑی جاسکتی ہے مگر ایسا سوچ رکھنے والا شاید کبھی نہیں پڑھتا اور عام عوام کو تو اسکی خبر بھی نہ ہو جب شب برات کاموقع آتا ہے اور اس میں اس نماز کے بارے میں لوگوں کا بتایا جاتا ہے تو نہ صرف علماء کے جنکو اس نماز کی خبر ہے بلکہ عوام بھی اس نماز کو ادا کر لیتی ہےاور صرف اسی وجہ سے کہ اس دن کو ایک مصلحت کے تحت تعین کیا گیا ہے ۔اسی طرح بزرگان دین سے اظہار عقیدت اور ایصال ثواب کیلئے دن کا تعین کیا جاتا ہے ۔نہ کہ اس تعین کو اسلام کا جز بتایا جاتا ہے بقیہ تفصیل خود حاجی امداد اللہ صاحب نے بیان فر ما دی ہے ۔

از : سعد حنفی 


Comments

Popular posts from this blog

Hassamul Harmain Ka Pas Manzer

اہلسنت پر اعتراضات کے جوابات