Hussamul Harmain Par Bahes Kio????

 







حسام الحرمین پر بحث کیوں؟

     ہم نے اپنی ایک پوسٹ”حسام الحرمین کا پس منظر“ ابھی کچھ دنوں قبل ہی شئر کی ہے جس میں ہم نے واضح طور پر یہ ثابت کر دیا تھا کہ منافقین نجدیہ کی تحریک کس طرح ہندوستان میں پھیلنا شروع ہوئی اور علمائے اہل سنت نے اس پر اپنے کیا کیا کردار ادا کئے،ایک بار سرسری طور پر ہم اس کو دہرا دیتے ہیں:
     1831ء؁ میں تقویۃ الایمان شائع ہوئی جس میں وہابیت کی بو کو علمائے اہل سنت نے محسوس کیا یا یوں کہئے وہابی مذہب کی بنیاد ڈالنے کی پہلی کوشش اسی کتاب کے ذریعے ہندوستان میں پڑی۔اس وقت نہ دیوبندی تھے نہ بریلوی امام اہل سنت کی ولادت بھی نہ ہوئی تھی۔تب اس کتاب کاعلمائے اہل سنت نے خود رد فر مایا اور اس پر بڑی بحث جامع مسجد میں چھڑی،پھر 1871ء؁ میں تحذیر الناس لکھی گئی جس پر علمائے اہل سنت قادیانیوں کے مذہب کو تقویت پہنچانے والی اس عبارت کا خوب رد فر مایا۔یہاں تک مولوی اشرف علی تھانوی نے خود اس کا اقرار کیا ہے کہ جب قاسم نانوتوی نے تحذیر الناس لکھی پورے ملک میں کسی نے بھی ان سے موافقت نہ کی،سوائے مولوی عبدالحی کے پھر اسکے بعد جب براہین قاطعہ لکھی گئی جسے مولوی خلیل احمد انبیٹھوی نے اپنے نام سے شائع کیا تب انکے قریبی دوست مولانا غلام رسول دستگیر قصوری نے انسے ناراضگی کا اظہار کیا اور 1306؁ھ میں مولویو ی خلیل احمد انبیٹھوی کو مناظرہ بہاول پور میں شکست بھی دی۔اور اسکی روئداد عربی میں علمائے حرمین کے سامنے پیش کی جس پر انھوں نے اسے تصدیقات اور اپنی تقاریظ سے نوازا۔
 اب بات کرتے ہیں ”حسام الحرمین“ کی:حسام الحرمین اس کتاب میں اکابرین دیوبندکی ان عبارتوں پر ایک استفتاء تیار کیا گیا اور علمائے حرمین کے سامنے اس پر انکے جواب طلب کئے گئے جس پر علمائے حرمین نے ان اکابرین دیوبند کی تکفیر فر مائی اور اپنی تقاریظ میں ان دیوبندی علماء کا رد فر مایا:
    یہ فتاویٰ نام ”حسام الحرمین“1905میں شائع ہوئی اور1906ء؁میں اردو تر جمہ کے ساتھ پورے ملک میں پھیل چکی تھی جس پر علمائے ہند نے بھی اپنی تقاریظ اور تصدیقات پیش کیں۔اب غور کیجئے 
1831ء؁ میں تقویۃ الایمان سے مسلمانوں میں انتشار چھڑا مطلب حسام الحرمین سے تقریباً75سال قبل تحذیر الناس لکھی گئی 1871ء؁ میں اور علمائے ہند نے اس کا رد فر مایا مطلب حسام الحرمین سے تقریباً35سال پہلے براہین قاطعہ پر مناظرہ ہوا 1306ھ؁ میں مطلب حسام الحرمین سے 18سال قبل ہجری کے حساب سے حسام الحرمین 1325ھ؁ میں شائع ہوئی مطلب 18سال پہلے اسی براہین قاطعہ کی عبارت پر مناظرہ ہوا جس کو علمائے حرمین شریفین نے ملاحظہ فر مایا اور اسکی روئیداد پر اپنی رائے بھی رکھی۔
حسام الحرمین پر اعتراضات کئے گئے:
(۱)……علمائے دیوبندکی کتابیں اردو میں تھیں اورعلمائے حرمین عربی جانتے تھے جس کافائدہ مولانا احمد رضا خان نے اٹھایا اور اسکو عربی میں اپنے من مانے مفہوم کے مطابق کفریہ طرز میں ان علمائے حرمین کے سامنے پیش کی اور اس پر بڑی چالاکی سے فتویٰ کفر ان علمائے حرمین سے لیا۔
جواب: دیوبندی اپنے ماضی کو شاید بھول بیٹھے ہیں تو ہم یاد دلاتے ہیں کہ جب ان دیوبندی اکابرین کی عبارات چھپی تو اردو میں چھپی تو کیا ہندوستان کے علماء کو بھی عربی آتی تھی جو بناء سمجھے ہی اس کا رد فر مانے لگے پہلے ان علماء اہل سنت نے ہی ان کا رد فر مایا جو اردو جانتے تھے اور اسی ملک سے تعلق رکھتے تھے،ان اکابرین دیوبند کی عبارات کفریہ ہیں اس کاشور تو ان اکابرین کی کتابوں کی اشاعت سے ہی اٹھ چکا تھا مطلب حسام الحرمین کا جب نام ونشان بھی نہیں تب سے ہی ان عبارات کفریہ پر علمائے اہل سنت نے ان مولوی کی تکفیر کرنی شروع کر دی تھی تب تو انکے سامنے نہ حسام الحرمین کی عبارت تھی جسے تم کہتے ہو توڑ مروڑ کر لکھی گئی۔تو اس بات کو ماننا ہی پڑے گا کہ وہ عبارت لکھی ہی کفریہ گئی تھی حسام الحرمین کی اشاعت کے بعد ان کی تکفیر نہیں بلکہ پہلے سے ہی اس پر کفرکی تلوار علماء ہند نے لٹکا دی تھی۔اگر حسام الحرمین میں ان عبارتوں کا کاٹ چھاٹ کر کفریہ بنایا گیا ہوتا تو پہلے کے علماء اس پر ہنگامہ نہ برپا کرتے بلکہ بعد میں اس پر فتویٰ کفر لگتا لیکن حسام الحرمین کی اشاعت سے 30۔35سال قبل سے ہی ان عبارتوں پر تماشہ چل رہا تھا۔
(۲) حسام الحرمین میں اکابرین دیوبند کی عبارتوں کو کاٹ چھاٹ کر پیش کیا گیا اور انہیں کفریہ طرز میں علمائے حرمین کے سامنے پیش کی گئیں 
جواب: اس کا جواب ہم نے اوپر دیا ہے اور اگر تم اپنے دعویٰ میں سچے ہوتے تو بقول تمہارے حسام الحرمین میں عبارات اکابرین دیوبندکو کاٹ چھاٹ کر علماء حرمین کے سامنے کفریہ بنا کر پیش کیا گیا تو جواب دو پہلے ہی سے کیوں ان عبارات پر مناظرے ہو رہے تھے پہلے تو یہ عبارات اپنی ہی کتابوں میں تھیں ان میں تو کوئی چھڑ چھاڑ نہیں ہوئی تھی۔اور اگر پہلے یہ عبارتیں کفریہ نہیں تھیں تو صرف حسام الحرمین کے فتویٰ میں ان اکابرین دیوبند کو کفریہ مانا جاتا نہ کہ حسام الحرمین کی اشاعت سے 30سال قبل اس پر مناظرہ ہوتا۔
(۳)حسام الحرمین میں تحذیر الناس کی تین الگ الگ عبارتوں کو ایک بناکر پیش کیا گیا اور اسکو کفرمیں ڈھالا گیا۔
جواب: اس کا جواب بھی وہی ہے جو ہم نے پہلے دیا پھر بھی ہم چاہتے ہیں کہ دیوبندی اپنے حکیم الامت کی بھی سن لیں۔خود مولوی اشرف علی تھانوی اپنے ملفوظ میں بیان کرتے ہیں کہ جب تحذیر الناس لکھی گئی تو پورے ملک بھر میں کسی نے مولوی قاسم نانوتوی کے ساتھ موافقت نہ کی سوائے مولوی عبدالحئی کے،پتہ چلا کہ تحذیر الناس 1871میں لکھی گئی اور حسام الحرمین 1905ء؁ میں 35سال قبل ہی اس عبارت پر مولوی قاسم نانوتوی کی حالت خواب ہوچکی تھی۔اب بتائیے 35سال قبل تو تحذیر الناس کی عبارتیں اپنی اپنی جگہ پر تھیں حسام الحرمین پر جو تم اعتراض کرتے ہو ئے تین عبارتوں کو ایک بناکر کفریہ طرز میں بنایا گیا تب تو ہر عبارت اپنی اپنی جگہ پر تھیں اس وقت کیوں مولوی قاسم نانوتوی کی حالت خراب ہوئی کیوں پورے ملک بھر کے علماء انکے خلاف تھے؟ بقول تمہارے پہلے عبارت کفریہ نہیں تھی حسام الحرمین میں کاٹ چھاٹ کرکے عبارت کو کفریہ بنایا گیا تو اس کتاب میں تو اس سے پہلے عبارتیں اپنی اپنی جگہ پر تھیں تو اس وقت یہ کفریہ کیسے بن گئیں۔
(۴) علمائے حرمین کو دھوکا دیا گیا اور بڑی چالاکی سے ان سے فتویٰ کفر لئے گئے۔
جواب: علمائے حرمین کو کوئی دھوکا نہیں دیا گیا حسام الحرمین سے پہلے بھی ان اکابرین دیوبند کی شکایتیں ان تک پہنچتی رہیں۔انکے لئے یہ کوئی نئی بات نہیں تھی جیسا کہ1306ھ؁میں مناظرہ بہاول پور جس میں دیوبندی مولوی خلیل احمد سہارنپوری(انبیٹھوی) کی ذلت میں آمیز شکست ہوئی اس کی روئیداد بھی ملاحظہ کر چکے تھے۔تو حسام الحرمین کیلئے امام اہل سنت کو دھوکا دینے کی کیا ضرورت تھی وہ آخری فیصلہ کیلئے علمائے حرمین کے پاس گئے تھے تاکہ ملک میں جن فسادیوں نے انتشار برپا کیا ہوا ہے انکا فیصلہ اس جگہ کے علماء کر دیں جن کا احترام سبھی کرتے ہیں اور سارے مسلمان ایک ہوکر ایک فیصلہ کو مان لیں۔
(۵)حسام الحرمین کی اشاعت کے بعد علمائے حرمین کے سامنے مولوی حسین احمد نے انکے سامنے علمائے دیوبند کی حقانیت بیان کی تب انھوں نے 26سوالات لکھ کر دیوبند بھیجے جس کا جواب المہند علی المفند کے نام سے دئیے گئے اور علمائے حرمین نے اپنے کفریہ فتاویٰ سے رجو ع کیا۔
جواب: جس وقت المہند علی المفند نامی کتاب چھپی اسی وقت پانچ علمائے اہل سنت نے اس کتاب کا رد فر مایا جن میں تین تو خود امام اہل سنت کے خلفاء میں سے تھے۔المہند علی المفند کی حقیقت کو جاننے کیلئے مناظر اہل سنت مولانا حشمت علی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب رد دالمہند کا مطالعہ کریں بہر کیف ہم سرسری اس کا بھی جواب دئیے دیتے ہیں:
1831ء؁ میں جس فتنے نے ہند میں سر اٹھایا اسی فتنہ نے بہت پہلے حجاز میں فساد برپا کر رکھا تھا تو اس کا مطلب وہاں ایسے قسم کے لوگ موجود تھے جو اس فتنہ کو ہوا دے رہے تھے،انہیں میں ایک نام مولوی حسین احمد کا ہے جو ہند سے یہ فتنہ لیکر حجاز پہچا تھا۔اور دوسری بات کہ جب تقدیس الوکیل عن توہین الرشید والخلیل نامی کتاب(مناظرہ بہاولپور) ان علمائے حرمین تک پہنچی تب کیوں انھوں نے سوال لکھ کر نہیں بھیجے حسام الحرمین کے بعد ہی کیوں سوال بھیجے گئے،تو اسکا جواب خوددیوبند کے مولوی نے دے دیا ہے لہٰذا مولوی محمودالحسن صاحب لکھتے ہیں کہ”اسی زمانے میں مولانا حسین احمد مدنی بھی وہی تھے حجاز مقدس میں انھوں نے اٹھائیس سوالات لکھ کر بھیجے سہارنپور حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری کے پاس“(مسلک علمائے دیوبند اور حب رسول ص:85)اس سے پتہ چلا کہ علمائے حرمین کی جانب ان لوگوں نے جھوٹ منسوب کیا انکے پاس حرمین شریفین کے کسی عالم نے سوال نہیں بھیجے اور نہ ہی آج تک ان دیوبندیوں کی طرف سے کسی عالم کا نام پیش کیا گیا کہ فلاں نے یہ سوالات بھیجے اوراگر علمائے حرمین ہیں تو ان سوالات بھیجنے والوں کے نام کیا ہیں؟ بس یہی پروپیگنڈا پھیلایا گیا کہ علمائے حرمین نے علمائے دیوبند کو سوالات لکھ کر بھیجے۔پتہ چلا کہ اس وقت حسین احمد دیوبندی حجاز میں تھا اور اسکے ساتھ مل کر مسلمانوں کے دھوکا دیا گیا اگر علمائے حرمین کو دیوبندی علماء کے کفر یات پر شک وشبہات ہوتے تو امام اہل سنت کو یوں ہی انکی تکفیر نہ تھما دیتے اور یہ سوالات اس وقت بھی پوچھے جاتے جب مناظرہ بہاولپور انکے سامنے پیش کیا گیا اور ان علمائے حرمین نے اس کی تصدیق فر مائی۔
حسام الحرمین پر اعتراضات کرنے والوں سے چند سوالات:
(۱) اگر علمائے حرمین کو عربی آتی تھی اور وہ اردو نہیں جانتے تھے صرف اس بناء پر انھوں نے ان اکابرین دیوبند کی تکفیر کر دی۔تو ہندوستان میں کیوں اس سے 35سال قبل مناظرے ہو رہے تھے۔
(۲)کیا علمائے حرمین اتنے غیر ذمہ دار عالم تھے کہ کوئی بھی اپنی مرضی کا فتویٰ ان سے لکھوالائے اور بعد میں انہیں رجوع کرنا پڑے؟
(۳)ان علماء نے اکابرین دیوبند کی تکفیر کی تھی کیا فتویٰ تکفیر بلاتحقیق اسی طرح دے دیا جاتا ہے؟
(۴)اگر علمائے حرمین کو اکابرین دیوبند کے بارے میں سوالات کرنا تھا تو حسام الحرمین چھپنے کے بعد میں کیوں کیا پہلے کیوں نہ کیا؟
(۵) اگر اعلیٰ حضرت نے ان عبارتوں کو کاٹ چھاٹ کرکے کفریہ بنایا تو کیا پہلے یہ عبارتیں بے غبار تھیں اور اگر بے غبار تھیں تو ان کتابوں کے چھپتے ہیں انکا رد کیوں ہونے لگا؟
(۶)جس وقت تحذیر الناس چھپی پورے ملک میں مولوی قاسم نانوتوی کے خلاف ہنگامہ ہوا اس وقت کونسا مذہب نیا تھا تحذیرالناسی مذہب یا اہلسنت؟














Comments

Popular posts from this blog

Hassamul Harmain Ka Pas Manzer

اہلسنت پر اعتراضات کے جوابات

22 Rajjab Ke Kunde Aur Munafikeen