Aalahazrat Ki Waseeyat Aur Deobandi Munafeqat


 

 اعلیٰ حضرت کی وصیت اور دیوبندی منافقت 

 
(نوٹ: تحریر میں ٹائپنگ مسٹک ممکن ہے توجہ کے ساتھ پڑھیں) 

میرے پیارے سنی بھائیوں السلام علیکم:

جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ چودھویں صدی میں ایک نئے فتنے کا جنم ہو ا جسے دیوبندی کہا جاتا ہے یہ مذہب اپنے عقائد ونظریات کی بناء پر خود دین میں ایک بہت بڑی بدعت کو فروغ دے رہا تھا اوراس فتنے کے پیشوا یان عوام اہل سنت میں ایسے ایسے من گھڑت نظریات قائم کرنے میں لگے ہو ئے تھے کہ ہر کوئی حیرانی میں مبتلا تھا ایسے وقت میں امت کے ذمہ دار علمائے کرام نے ان خبیث منافقین کی گرفت فرمائی اور انکے گستاخانہ عقائد ونظریات پر فتویٰ تکفیر جاری فرمایا۔یہ اپنے اس نظریات باطلہ کی بناء پر علماء حرمین کے فتویٰ کی زد میں بھی آچکے تھے اور پورے ملک ہندوستان کے علماء اہل سنت جیسے جیسے اس فتنہ نجدیہ سے واقف ہو تے گئے انکے رد اور انکی تکفیر کرتے چلے گئے۔حال یوں ہوا کہ ان منافقین کو اپنا نام تک بدلنے کی نوبت آگئی۔اسکی تفصیل آگے آئے گی۔

 دیوبندکے ان منافقین کو جب کچھ نہ سوجھا تو کچھ برس خاموشی کے کاٹے اور پھر بعد میں عوام اہلسنت کے ان معتبر علماء پر کیچڑ اچھالنا شروع کرد یا جن حضرات نے ان کا رد فرمایا تھا انہیں علماء احناف میں امام اہل سنت اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ بھی شامل تھے جن کے نام سے ان بھانڈ منافقین نے یہ شوشہ چھوڑا کہ انھوں نے ایک نئے دین کو ایجاد کیا اور حوالہ ”وصایہ شریف“ کا دیا کہ جس میں اعلیٰ حضرت امام اہل سنت علیہ الر حمہ نے اپنے مریدین وعقیدت مندوں کو یہ وصیت فرمائی ہے کہ ”میرا دین ومذہب جو میری کتب سے ظاہر ہے اس پر مضبوطی سے قائم رہنا ہر فرض سے اہم فرض ہے“ (یہ عبارت فی الوقت دیوبندی کتاب مطالعہ بریلویت سے نقل کی گئی ہے) اب دیوبندیوں کے اس بھانڈ مناظر(مصنف ”مطالعہ بریلویت۔خالد محمود) نے عوام اہل سنت کو فریب میں ڈالنے کیلئے ایک نئی کہانی گڑھی جس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں کذاب وبھانڈ دیوبندی منافق ”خالد محمود“ اپنی بدنام جھوٹی دستاویز ”مطالعہ بریلویت“ میں لکھتا ہے ”مولانا احمد رضا خان کے مذہب میں امتیازی مسائل یوں تو بہت ہیں لیکن وہ مرکزی کام جن کے گرد بریلوت کی چکی گھومتی آئی ہے تین ہیں:(۱) تکفیر امت یعنی اپنے مسلک کے سوا باقی کل مسلمانوں کی تکفیر کر نا (۲) انگریزوں کے خلاف اٹھنے والی ہر تحریک آزادی کی مخالفت کر نا (۳) دیہات کے رسم ورواج کو شرعی استناد مہیا کر کے جہلا کو اپنے ساتھ ملائے رکھنا“(جلد:۱ صفحہ ۹۱) مطالعہ بریلویت کی اس عبارت میں ہم پہلی بات کا جواب دیتے ہیں وہ یہ کہ کیا دیوبندیوں کو اس حدیث کا علم نہیں دیا جاتا کہ  رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی بہتر جہنم میں جائے گے ایک ہی جنت میں ہو گا“ اب کیا خالد محمود اور اسکے دجال منافقین یہاں پرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی لعن طعن کریں گے کہ آپ ایک مذہب کو چھوڑ کر سب کو جہنمی کہتے ہیں۔اعلیٰ حضرت نے اسی کی ترجمانی کی ہے بیشک امام اہل سنت وانکے متبعین کو اپنے ایمان پر اسی طرح پختہ یقین تھا اسی لئے وہ خود کو ہمیشہ سے جنتی کہتے آئے اور اسی پر عمل کرتے آئے اور جن فرقوں کو اپنے ایمان وعقائد پر پختہ یقین نہیں وہ کبھی اِسکے پیچھے تو کبھی اُ س کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں اور کبھی اِسکی اقتدا تو کبھی اُس کی اقتدا کرتے ہیں اور اگر پھر بھی ان عقل کے اندھوں کو کچھ نہیں سوجھتا تو کہتے ہیں سبھی لوگ جنتی ہیں مطلب رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کو ٹھکرا دیتے ہیں اسلئے کہ کہیں اس قول پر زیادہ سخت رویہ انھیں بریلوی نہ بنادے جیسا کہ انھیں امام اہلسنت اور آپ کے ماننے والوں سے صرف اسی لئے چڑھ ہے کہ وہ رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم اور آپکے قول کو پختگی سے مانتے ہیں۔اور بات رہی تکفیر کی تو دیوبندیوں کی تکفیر صرف اعلیٰ حضرت نے ہی نہیں بلکہ انکے اکابرین جس مرشد سے بیعت تھے جناب حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی صاحب کے مریدین وخلفا نے ہی انکی تکفیر کی اور اسی کے ساتھ علماء احناف اہلسنت نے ملک بھر سے لیکر حرمین طیبین تک انکی تکفیر کی تھی اس لئے صرف اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ سے اپنا بغض ظاہر کرنا صرف اس لئے کہ وہ مرد مجاہد ایسے تھے کہ نجدیہ شیخ کی پوری تحریک ہندوستان میں داخل ہونے سے پہلے ہی ڈگمگا گئی اور امام اہلسنت احمد رضا خان علیہ الرحمہ نے تحفظ ناموس رسالت کا وہ پہرہ دیا کہ گستاخیاں کرنے والوں کے منہ کالے ہو گئے یہاں تک کہ جب تک وہ حیات ظاہری میں تھے دیوبند کا بندہ ہو یا انگریز کا بندہ سب کی زبانیں بند ہو چکیں تھی اور اس دور میں صرف ایک سکہ چلا امام احمد رضا فاضل بریلوی علیہ الر حمہ کا اور صرف انکا ہی ڈنکا بجہ۔

     سب ان سے جلنے والوں کے گل ہو گئے چراغ 

     احمد   رضا   کی   شمع  فروزاں  ہے  آج   بھی 

اور بات رہی دوسری والی بات کہ انگریزوں کے خلاف اٹھنے والی ہر تحریک آزادی کی مخالفت کرنا تو اس پر تاریخ گواہ ہے کہ اعلیٰ حضرت نے ایسا کہیں نہیں کیا اور خالد محمود اور اسکے بھانڈ مریدین کو چیلنج ہے کہ ایک عبارت ثابت کریں جس میں اعلیٰ حضرت نے صرف اس لئے ان تحریکوں کا رد کیا ہو کہ وہ انگریزوں کے خلاف تھیں۔

تیسری بات یہ کہ دیہاتی رسم ورواج کو شرعی استناد مہیا کرنا تو یہ بھی دیوبندی مولوی خالد محمود کا بہت بڑا جھوٹ ہے جس کو پو ری نجدیت و دیوبندیت کبھی ثابت نہیں کر سکتی۔اور اگریہ بات صحیح ہوتی تو خالد محمود کے ۰۷ سے ۰۸ سالوں کے بعد کیسے پتہ چلی جب کہ اکابرین دیوبندی جن کی تکفیر ہو ئی وہ بھی اس مقام پر کچھ نہیں کہہ سکے اور امت کے وہ ذمہ دار علماء احناف کو بھی کچھ نظر نہ آیا۔

کیا میرا دین اور میرا مذہب کہنے کا یہ مطلب ہو تا ہے کہ کہنے والا نئے دین کو موجد ہے؟

نہیں ایسا ہر گز نہیں ہے۔یہ بھی عوام اہل سنت کو گمراہ کرنے کیلئے دیوبندیوں کی طرح انکا نیا اصول ہے اعلیٰ حضرت امام اہل سنت علیہ الر حمہ فرماتے ہیں ”میرا دین ومذہب جو میری کتب سے ظاہر ہے اس پر مضبوطی سے قائم رہنا“ اب بات یہاں واضح بیان ہو گئی کہ اعلیٰ حضرت نے اس دین ومذہب کی بات کی جو آپ کی کتابوں سے ثابت ہے اور ظاہر سی بات اعلیٰ حضرت کی حیات ظاہری سے لیکر دیوبند کے بھانڈ مناظرین آج تک آپ کی کتابیں چھان رہے ہیں لیکن ان بھانڈ اور بارہا مناظرہ سے بھاگنے والے مفرور مناظرین کو آج بھی اس میں کوئی نیا دین نظر نہ آیا اور اگر بالفرض مان بھی لیا جائے انکے بقول اعلیٰ حضرت کی کتابوں میں ایک نئے دین کا وجود ہے تو اکابرین دیوبندیہ شروع سے ہی اعلیٰ حضرت کی تکفیر کیلئے کیوں ہمت نہ جٹا پائے  قابل غور بات یہ ہے کہ اعلیٰ حضرت نے انکی تکفیر فرمائی ہندوستان کے اکابرین اہلسنت نے ان دیوبندیوں کی تکفیر فرمائی علمائے حرمین طیبین نے انکی تکفیر فرمائی جبکہ کیا اس وقت اعلیٰ حضرت کی کتابیں پردہ سے ڈھکی ہو ئیں تھیں کہ منافقین دیوبندیہ کی گستاخانہ عبارات تمام ہی علماء احناف اہل سنت کے سامنے آگئی اور اعلیٰ حضرت کی سیکڑوں کتابیں جن میں ایک نیا مذہب موجود ہے بقول دیوبندی منافقین وہ کسی کو نظر نہ آئی۔انکے بھانڈ اکابرین جو اعلیٰ حضرت کے عہد میں حیات تھے وہ کہاں مر گئے تھے کہ ایک شخص نیا مذہب ایجاد کر بیٹھا اور ان لوگوں نے اپنی ایک بھی کتاب میں یہ نہیں لکھا کہ مولوی احمد رضا خان نے ایک نیا مذہب ترتیب دیا ہے۔ارے یہ بات تو دور کی انکے بھانڈ اکابرین کی اتنی بھی جرأت نہ ہو ئی کہ اپنے ہی کفریہ عبارات کو لیکر اعلیٰ حضرت کا سامنا کر یں جو دین میں نئے تھے ان کو پو ری امت دیکھ رہی تھی اور جو دین میں اپنی پرانی روایات کے ساتھ تھے ان علماء ہند علماء احناف کے ساتھ پو ری امت کھڑی تھی پتہ چلا جو نئے تھے وہ خودہی الگ تھے اور جو پرانے تھے وہ اس وقت بھی سب کے ساتھ تھے اور اب بھی اسی پر قائم ہیں۔

پوسٹ جاری۔۔۔۔۔۔۔

تحریر: سعد حنفی (رکن تحریک اصلاح عقائد)


Comments

Popular posts from this blog

Hassamul Harmain Ka Pas Manzer

اہلسنت پر اعتراضات کے جوابات

22 Rajjab Ke Kunde Aur Munafikeen