Bidatiyon Ke Propagende Part 4

 بدعتیوں کے پروپگینڈے 

سلسلہ نمبر 4

سعد حنفی

یہ بات ہر علم والا جانتا ہے کہ اہل سنت وجماعت وہی جماعت ہے جو نجات پانے والی ہے اور بقیہ ناری فرقے بھی اس بات کو مانتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ یہ بھی خود اہل سنت ہی کہتے ہیں جبکہ یہ کسی بھی طرح اہل سنت سے نہیں اسلئے کہ آج چودہ سو سال بعد اگر اہل سنت وجماعت کی حقیقی پہچان اور حقیقی نام وایمان کے ساتھ اگر کوئی جماعت موجود ہے تو وہ ہے بریلوی جماعت حالانکہ علمائے اہل سنت نے تو خود کو کبھی بھی بریلوی نام نہیں دیا جبکہ منافقین اس جماعت کو اسی نام سے پکارتے ہیں۔ہاں علمائے اہل سنت نے خود کوان ناری فتنوں سے الگ بتانے کیلئے مسلک اعلیٰ حضرت کا نام دیا ہے۔تاکہ حقیقی اہل سنت وجماعت پر وہ مہر لگ جائے کہ باطل فرقے اس نام سے ہی بھاگ کھڑے ہوں اورمسلک اعلیٰ حضرت وہ مہر ہے جسے منافقین کبھی بھی چرا نہیں سکتے۔یہ خود کو محمدی بتا سکتے ہیں۔سنی بتا سکتے ہیں سلفی بتا سکتے ہیں قادری بتا سکتے ہیں۔چشتی۔سہروردی۔حنفی۔مالکی۔شافعی۔حنبلی۔سب بتا سکتے ہیں سبھی کے ٹائیٹل چوری کر سکتے ہیں لیکن مسلک اعلیٰ حضرت وہ مہر ہے جسے یہ نہیں چرا سکتے۔یہی وجہ ہے کہ ان باطل فرقوں نے امام اہل سنت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا کو بدنام کر نے کیلئے نئے نئے حربے استعمال کئے اور خوب پروپیگنڈا عام کیا۔جن میں کئی پروپیگنڈا ہم نے اپنی پچھلی قسطوں میں بیان کئے۔اب انکا اگلا پروپیگنڈا ملاحظہ کیجئے۔

اہل حدیثوں کے امام العصر مولوی”احسان الٰہی ظہیر“نے ایک کتابی پرو پیگنڈا لکھا جس کا نام ”بریلویت“ ہے اس کتاب ایک جگہ تو اس جاہل نے اعلیٰ حضرت کے استاد مرزا غلام قادر بیگ کو قادیانی کا بھائی بتانے کا دعویٰ کیا جسے پوری قوم نام ونہاد اہل حدیث کے بانی وکابرین بھی دس بار مر کر مٹی مل جائیں تب بھی ثابت نہیں کر سکتے۔یہ وہی قوم ہے جو اپنے مقابل اگر ایک حدیث بھی پاتی ہے ہزار بہانے بتاتے ہیں کہ یہ ضعیف ہے یہ گڑھی ہے اس کا راوی جھوٹا ہے اور جب انکے مقصد کے مطابق کوئی حدیث مل جائے تو ضعیف بھی قوی ہو جاتی ہے یہاں تک یہ لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم صرف صحیح حدیثوں کو مانتے ہیں۔لیکن انکے صحیح اور ضعیف سندوں کے ماننے کی پول اسی بات پر کھل جاتی ہے کہ جب احسان الٰہی ظہیر جو ان اہل حدیثوں کا امام العصر ہے اعلیٰ حضرت کو بلا دلیل بلا تحقیق قادیانی کے بھائی کا شاگرد بتا دے تو بالکل مان بیٹھے ہیں۔جبکہ اس دعویٰ میں سوائے اسکی جہالت کے کچھ نہیں ہے اور اس دعویٰ کی کوئی اصل نہیں ہے۔

    اس مولوی نے اپنی اس کتاب میں امام اہل سنت اور آپ کے ماننے والوں کے عقائد کو بیان کرتے ہو ئے ایک عنوان باندھ جس کا نام ہے”غیر اللہ سے فر یاد درسی“ہے اس عنوان کے تحت بھی صرف پروپیگنڈاکو عام کرنے کی سازش کی گئی ہے اس لئے کہ ان نام نہاد اہل حدیثوں نے ابھی تک جتنی قرآنی آیات کو عوام اہل سنت پر چسپاں کیں ہیں وہ کسی بھی طرح مسلمانوں پر نہیں بلکہ کفار ومشرکین کے حق میں نازل ہو ئیں ہیں ۔جس کی مذمت حدیث پاک میں موجود ہے۔

     حضرت ابن عمر خارجیوں کو بدترین مخلوق سمجھتے تھے اور فر مایا کہ انھوں نے جو آیتیں کفار کے حق میں نازل ہو ئیں انہیں مسلمانوں پر چسپاں کر دیا“(صحیح بخاری جلد 2,حدیث1815)

اس حدیث پاک سے صاف واضح ہو گیا کہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک خارجی بدترین مخلوق تھے اور وہ اس لئے کہ ان لوگوں نے کفار ومشرکین پر نازل ہونے والی آیتوں کو مسلمانوں پر چسپاں کردیا۔پتہ چلا کہ آج کے نام ونہاد اہل حدیث انہیں خارجیوں کی نسل سے ہیں بس نام بدل کر مسلمانوں کو دھوکہ دیتے ہیں تاکہ لوگ انہیں حدیث کا پیروکار سمجھیں۔جبکہ ان لوگوں نے بھی وہی حر کتیں کیں ہیں جو خارجیوں نے کیں تھیں یعنی کفار کے حق میں نازل ہونے والی آیتوں کو مسلمانوں پر چسپا کر کے انہیں مشرک اور کافر بتایا۔

     اہل حدیثوں کا امام العصر مولوی احسان الٰہی ظہیر اپنے اکابرین کی طرح قرآنی آیات کے تقدس سے کھلواڑ کرتے ہو ئے ایک آیت نقل کرکے اسے مسلمانوں پر چسپاں کرتے ہو ئے عوام اہل سنت کے خلاف پروپیگنڈاتیار کرتے ہو ئے لکھتا ہے۔ ”بریلوی حضرات اسلام کے عطا کر دہ تصور تو حید کے بر عکس غیر اللہ سے فریاد طلبی کو اپنے عقائد کا حصہ سمجھتے ہیں۔ان کا عقیدہ ہے:”اللہ تعالیٰ کے کچھ ایسے بندے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں حاجت روائی خلق کیلئے خاص فر مایا ہے۔لوگ گھبرائے ہو ئے ان کے پاس اپنی حاجتیں لاتے ہیں“۔(بریلویت صفحہ82)

اسی کو بیان کرنے کے بعد اس نے جاہل منافق نے قرآن مقدس کی آیت نقل کی” والذین یدعون من دونہٖ لا یستجیبون لھم بشئیءٍ “اور جن کو (یہ لوگ) اس کے سوا پکارتے ہیں وہ ان کا کچھ جواب نہیں دے سکتے“۔(سورۃ الرعد آیت 14)

    اس آیت کے اگلے حصے میں ان لوگوں کی مثال خود رب کائنات نے بیان فر دی ہے اللہ عزوجل فر ماتا ہے ”ان کا پکارنا صرف اس شخص کی طرح ہے جو(دور سے) پانی کی طرف اپنے دونوں ہاتھ بڑھائے تاکہ پانی ا س کے منہ تک پہنچ جائے حالانکہ اس تک پہنچنے والانہیں ہے اور کافروں کی پکار صرف گمراہی میں ہے“(سورۃ الرعد آیت ۴۱) اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ آیت کافروں کے حق میں نازل ہوئی ہے جو حقیقی حاجت روا اپنے بتوں کو مانتے تھے یہی وجہ ہے کہ انکی مثال اس شخص سے دی گئی ہے جو پانی کی طرف دور سے ہاتھ بڑھائے اور سمجھے کہ پانی اس تک اسکے منہ تک پہنچ جائے لیکن ایسا نہیں ہو سکتا  اسلئے کہ پانی نہ تو سن سکتا ہے اور نہ ہی اسکو دیکھ سکتا ہے اور نہ اسکی پکار پر اسکے قریب آ سکتا ہے یہ مثال اسی لئے دی گئی ہے کہ بتوں کے تعلق بھی یہی بات بیان کی گئی ہے کہ وہ نہ ہی کسی کی فر یاد سن سکتے ہیں اور نہ کچھ بو ل سکتے ہیں۔

     بریلویت کے مصنف نے اپنے اکابرین کی طرح خود کو بدترین مخلوق ثابت کرتے ہوئے اس آیت کو بھی مسلمانوں پر چسپا کر دیا۔جبکہ علمائے بریلی جن کی طرف یہ آیت منسوب کی گئی ہے کسی نے بھی اولیائے کرام کوحقیقی حاجت رواہ نہیں مانااور نہ ہی ماننے کا حکم دیا اور سبھی نے انکے وسیلہ سے دعا کرنے کا حکم دیا ہے۔اور اگر مصنف کے نظریہ کے  مطابق یہ مان لیا جائے کہ اہل سنت کا یہ عقیدہ کہ اللہ عزوجل کی عطا ء سے اس کے بندے مدد فر ماتے ہیں شرک ہے تو ہم بتاتے چلیں کہ یہ نظریہ بھی انکے ذہن کی وہی گندگی ہے جو انکے پرکھے خارجیوں کے ذہن میں تھی۔جبکہ نظر یہ اہل سنت کیا ہے دیکھئے۔

   امام ابو بکر عبداللہ بن محمد ابی شیبہ متوفی 235ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں:

   حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فر مایا کراماً کاتبین کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے فرشتے مقرر کیے ہیں جو درختوں سے گر نے والے پتوں کو لکھ لیتے ہیں جب تم میں سے کسی شخص کو سفر میں کوئی مشکل پیش آ ئے تو وہ اس طرح پکارے: اے اللہ کے بندو! تم پر اللہ رحم فر مائے میری مدد کرو (المصنف ج۔10ص 390مطبوعہ ادارۃ القرآن کرا چی،1406ھ) 

مشہور غیر مقلد عالم شیخ محمد بن علی بن محمد شوکانی متوفی ۰۵۲۱ھ لکھتے ہیں:اس حدیث کے راوی ثقہ ہیں اس حدیث میں ان لوگوں سے مدد حاصل کرنے پر دلیل ہے جو نظر نہ آتے ہوں،جیسے فرشتے اور صالح جن اور اس میں کوئی حر ج نہیں ہے،جیسا کہ جب سواری کا پاؤں پھسل جائے یا وہ بھاگ جائے تو انسانوں سے مدد حاصل کر نا جائز ہے۔(تحفۃ الذاکر ین ص 202،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت،1408ھ)

امام ابوبکر عبداللہ بن ابی شیبہ جنھوں نے اپنی سند کے ساتھ اس حدیث کو روایت کیا ہے ان کادور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے دور سے ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تقریباً دو سو سال کا فرق ہے اس سے پتہ چلا کہ علمائے بریلی کا نظر یہ انگریزی سامراج کی دین نہیں بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی دین ہے اس لئے اعتراض کرنے والے اپنا نظریہ ڈھونڈ کر لائیں کہاں سے لائیں یہودیوں سے یا خارجیوں سے۔ 

  اب ہم واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ علمائے بریلوی اہل سنت وجماعت کے کسی بھی معتبر عالم نے کہیں بھی بزرگان دین کو حقیقی حاجت رواہ نہیں مانا ہے اور نہ ہی کسی کو اپنے رب کے مقابل میں کھڑا کیا ہے ہاں ہم اہل سنت تعظیم رسول اور تعظیم اولیا ء اللہ کیلئے ان سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں تو ضرور انکے دلوں میں آگ لگ جاتی ہے کہ جن کے دلوں میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ کے نیک بندوں کیلئے دشمنی بھری ہو ئی ہے۔

    عوام اہل سنت میں کچھ کم علم اور جاہل قسم کے ہوتے ہیں جو مزارات پر سجدہ کرتے ہیں اور کچھ خرافات کے مرتکب ہو تے ہیں لیکن یہ بات بھی ہر اہل علم جانتا ہے کہ عوام پوری جماعت پر حجت نہیں بلکہ معتبر علماء اور انکی معتبر کتب حجت ہوتی ہے اسی لئے غیر مقلدین جاہل نام ونہاد اہلحدیثوں کا چاہئے کہ اتنا ہی شوق ہے اگراہل سنت کے عقائد ونظر یات پر مطالعہ کرنے کا تو ہماری معتبر کتابیں پڑھو اور معتبر علماء کو پڑھو اور پھر بھی اگر تمہاری کھوپڑی میں کچھ نہ سماتا ہو تو علماء اہل سنت سے رابطہ کریں۔



Join تحریک اصلا ح  عقائد


https://chat.whatsapp.com/JOWv18nQjdqLWL1EgHspUe

Comments

Popular posts from this blog

Hassamul Harmain Ka Pas Manzer

اہلسنت پر اعتراضات کے جوابات

22 Rajjab Ke Kunde Aur Munafikeen